Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

36 - 102
ایدھی صاحب
عبدالستارایدھی صاحب ۹۲سال کی عمر پاکر۸جولائی ۲۰۱۶ء کودنیائے فانی سے دارالبقاء کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہوںنے اتنی محبتیں سمیٹیں جنہیںنقل کرنے کے لیے بڑی بڑی ضخیم کتب ناکافی ہوں گی۔ایدھی صاحب کوصرف ڈاڑھی کی وجہ سے مولانا کہا جاتا رہا جبکہ وہ علم وفضل سے بہت دور تھے، بلکہ دینی لحاظ سے انہیں ناخواندہ سمجھاجائے توبجاہے۔اس کے باوجود ان کے احسانات کانہ صرف ہر وہ شخص اعتراف کرے گاجسے ایدھی سینٹر سے کبھی کچھ مددملی ہو بلکہ خدمتِ خلق میں ان کا انہماک ان تمام لوگوں کے لیے قابلِ رشک اورقابلِ تقلید ہے جودنیا میں کچھ بھلاکرنا اوربھلائی سے یاد رہنا چاہتے ہیں۔ حکیم محمد سعید شہید کی طرح عبدالستار ایدھی کو خدمتِ خلق کے میدان میں عظیم کارنامے انجام دینے کی وجہ سے  ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔
ایدھی کی خدمات سے پہلی بار راقم اس وقت آشناہوا جب ہمارے علاقے پراناگولی مار میں ایک ساتھ ایک ہی گھرکے سات افراد قتل ہوگئے ۔یہ ۳۱سال پہلے کی بات ہے۔گولی مار کے اس محلے میں گلیاں اس قدرپیچیدہ اورتاریک ہیں کہ اجنبی لوگ دن کے وقت بھی اس میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرتے۔ مگردیکھتے ہی دیکھتے ایدھی کی ایمبولینسیں آن پہنچیں۔تدفین تک ایدھی سروس کی خدمات میسر رہیں ۔اس کے کچھ عرصے بعدکراچی میں مہاجر پٹھان فسادات شروع ہوئے ۔ایک ایک دن میں پچاس پچاس ،سوسو لاشیں گررہی تھیں ۔ایدھی کے رضاکار اس وقت بھی سرہتھیلی پر لیے ہر جگہ پہنچ رہے تھے ۔اس وقت ایدھی ٹرسٹ کے پاس گنتی کی چند ایمبولینسیں تھیں مگر اس کارکردگی نے ثابت کردیا کہ شہر میں ایسی کسی رضاکارتنظیم کی کس قدراہمیت ہے اوریہ خود اہلِ کراچی کی بنیادی ضرورت ہے۔اب مخیر حضرات کی طرف سے ایدھی ٹرسٹ سے بھرپور تعاون کاسلسلہ شروع ہوا۔چندسالوں میں اس تنظیم کی خدمات کادائرہ پورے ملک میں پھیل گیا۔کتنے یتیم خانے،کتنے دارالامان ، کتنے رفاہی مراکز ایدھی صاحب کے دردِ دل اورخلوص کی برکت سے وجود میں آئے۔
میں سوچ میں گم ہوں آخر ایک سیدھاسادا شخص جوعالم تھانہ عصری تعلیم کے لحاظ سے کسی ڈگری کا حامل…وہ اتنے بڑے کارنامے کیسے انجام دے گیا ؟وہ تقریر کابادشاہ تھا نہ تحریر کا شہ سوار۔طبیعت اتنی سادہ تھی کہ اس سے دانش وبصیرت کی باتوں کی توقع کرنا ہی غلط تھا۔جہاں تک میرااندازہ ہے کسی مربوط اورگہری منصوبہ بندی کی صلاحیت بھی ان میں نہیں تھی ۔اس کے باوجود انہوںنے کام ایسا کر دکھایا کہ پوری دنیامیں پاکستان کے حوالے سے وہ خدمتِ خلق کاعنوان بن گئے۔  
مجھے اس سوال کاایک ہی جواب سمجھ آتا ہے۔اپنے کام سے غیرمعمولی لگن ،اخلاص اوربے لوثی۔ ایدھی خدمتِ خلق کے جذبے کادوسرانام تھا۔کسی کوتکلیف میںدیکھنا ان کے بس سے باہرتھا۔ بچپن سے ان میں یہ صفت بہت نمایاں تھی۔اسی ولولے نے انہیں متحرک کیااوربڑے نامساعد حالات میں ایک ادارہ قائم ہوا۔ پھران کی توجہ اس طرف نہیں تھی کہ ادارہ  بہت بڑابن جائے ،اس کی جائدادیں اوراثاثے زیادہ سے زیادہ ہوں ۔بلکہ ان کی کوشش ہمیشہ یہ رہی کہ جو کچھ میسر ہو،اسے مستحقین تک پہنچادیاجائے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی سادہ ترین تھی۔اس کاسب سے بڑاثبوت خود ان کی بیماری میں سامنے آیا۔ پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کامعیارکیاہے ،یہ ہروہ شخص جانتاہے جوان ہسپتالوں میں آزمایاجاچکاہے۔ اس لیے جسے بھی استطاعت نصیب ہوتی ہے ،وہ آپریشن کرانے امریکا،فرانس یابرطانیہ چلاجاتاہے۔ایدھی صاحب کے لیے یہ کیامشکل تھا۔ انہیں مشورہ یہی دیا گیا تھا بلکہ اصرارکیاگیاتھا کہ امریکا میں علاج کرایاجائے مگر وہ اس کے لیے بالکل تیار نہ ہوئے۔ یہ ان کے نزدیک اپنے مشن سے غداری تھی ۔وہ پاکستان کے غریبوں کاامریکا میں علاج نہیں کراسکتے تھے توانہیں یہ بھی پسند نہ تھاکہ اپناعلاج وہاں کرائیں۔آخر اسی سرزمین میں انہوںنے دم توڑا اور یہیں دفن ہوئے۔  وہ دنیا سے اس طرح گئے کہ ایک دنیا ان کی موت پر روئی ہے۔سرکاری سطح پر اس قلندرکو سپاس نامہ پیش کیا گیاہے ۔ ان کے نام کاسکہ جاری کرنے کااعلان کیاگیاہے۔
ایدھی کی خدمات کو ان کی زندگی میں بھی پوری دنیاسے خراجِ تحسین ملتارہا۔مسلم وغیرمسلم شخصیا ت ، ادارے اوراین جی اوز سمیت سب نے انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا۔کسی نے محض ڈاڑھی کی وجہ سے ،انہیں دہشت گردی اوربنیاد پرستی سے مطعون نہیں کیا۔ان کاعمل کھراتھااس لیے اگر کسی کے ذہن میں کوئی شبہ تھابھی تو وہ بے بنیادتھااورجلد زائل ہوگیا۔اگریہ کہاجائے توبے جانہیں ہوگاکہ  ایدھی صاحب کی مولویوں جیسی وضع قطع دنیامیں یہ تاثرقائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے کہ مولوی خدمتِ خلق میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اوریہ کہ اگر نیت خالص ہو،تو ڈاڑھی کسی بھی جگہ کسی بھی نیک مقصد میں آڑے نہیں آتی بلکہ اس میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
مگر یہاںایک اہم ترین سوال خود ہمار ے لیے ہے ۔میں خود بھی اس کے لیے جواب دہ ہوں اور آپ بھی۔ وہ یہ کہ کیاہم واقعی خدمتِ خلق کے لحاظ سے کسی شمارمیں ہیں۔دنیا میں اس وقت جنگوں ، زلزلوں ،سیلابوں ،قحط سالیوں اوردیگر حوادثِ ارضی وسماوی کاشکاران گنت لوگ ہیں جو قابلِ رحم حالت میں ہیں ۔ ہم دورکیوں جائیں ۔اپنا وطن لہو لہو ہے۔ اپنے اڑوس پڑوس پرہی نگاہ ڈالیں کہ لوگ کس حال میں ہیں ۔کبھی ہم نے ان کی فکر کی ہے۔ہماری کچھ تنظیمیں ہیں،جو ماشاء اللہ بڑی منظم انداز میں خدمتِ خلق کاکام کررہی ہیں مگر ہم ان سے کس حدتک تعاون کررہے ہیں۔ایدھی صاحب کو ملنے والاچندہ ،عموماً عام آدمی کا ہوتاتھا۔ شاید ہمارے دینی حلقوں میں گنے چنے لوگ ہوں گے جوان سے تعاون کرتے ہوں ۔توسوا ل یہ ہے کہ ہم کس سے تعاون کررہے ہیں اورکس حدتک؟
پھر یہ کونسا ضروری ہے کہ خدمتِ خلق کاکام تنظیمیں ہی کریں۔میں اپنی ذات کی حدتک کیا کررہا ہوں؟ کیا ہم اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ اپنے محلے،اپنے گاؤں ،اپنی بستی اوراپنی برادری کی حدتک ضرورت مندوں کوتلاش کرکے ان کی اشک شوئی کریں۔ میرے خیال میں ہماری ہر مسجد کو خدمتِ خلق کا مرکز ہوناچاہیے ۔ہمارے ائمہ کو اس نیک کام کی قیادت کرنی چاہیے۔ایک ان پڑھ شخص بے لوث خدمت کرکے ایک ملک سے بھرپور عزت واحترام وصول کرسکتاہے توکیاایک عالم ،ایک بستی اورشہر میں یہ فضاقائم نہیں کرسکتا۔ مگر ضروری ہے کہ یہ کام پوری دیانت داری اوربے غرضی سے ہوورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جن کی ایسے معاملات میں بددیانتی نے دین اوراہلِ دین کی ساکھ خراب کی ہے۔اسی لیے اس قسم کے کاموں میں احتساب اورلین دین کی صفائی کاکام بہت اہمیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔نیز مال علماء اپنے ہاتھ میں نہ رکھیں بلکہ شریف اورامانت داراہلِ محلہ کویہ ذمہ دار ی دیں۔
میں ایدھی صاحب کی مذہبی حیثیت پر کوئی تبصرہ نہیں کرناچاہتا۔ ہرشخص جانتاہے کہ وہ عالم یامفکر نہیں تھے۔ دین کے بارے میں ان کی معلومات بھی واجبی سی تھیں،اسی وجہ سے بعض اوقات اپنے انٹرویوز میں وہ ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جودینی لحاظ سے قابلِ گرفت ہوتی تھیں۔ بہرحال میں ان کے متنازعہ انٹرویوزپر کوئی رائے دیے بغیر امانت سمجھ کرایک خواب کاذکرکرتاہوںجو گزشتہ روز ایک عزلت نشین عالم دین نے سنایاجن کے صدق ودیانت پر مجھے بہت اعتبار ہے۔(یادرہے کہ ان کا ایدھی صاحب یاایدھی ٹرسٹ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا )فرمایا: دیکھاکہ میں کراچی میں مکی مسجد (پرانے تبلیغی مرکز) کی سمت جانے والی سڑک پرجارہاہوں۔اچانک عبدالستارایدھی صاحب دکھائی دیے ۔ میں نے پوچھا:’’جناب کہاں جارہے ہیں۔‘‘
کہنے لگے :وہاں مدرسے میں انبیائے کرام علیہم السلام جمع ہیں۔میں انہی کی خدمت میں جارہا ہوں۔ تم بھی ساتھ چلے چلو۔‘‘
بس آنکھ کھل گئی اورخواب میںانبیائے کرام علیہم السلام کی زیارت سے محروم رہ گیا۔
ایدھی صاحب کے کیا کہنے ،اگر فی الواقع انہیں ایسی ہستیوں کے قدموں میں جگہ ملی ہو۔وہ رحیم وکریم رب جو ایک کتے کوپانی پلانے والی گنہگارعورت کی بخشش کردیتاہے ،لاکھوں انسانوں کی خدمت کرنے والے ایدھی صاحب کی لغزشوںکومعاف کردے تو اس کی شانِ کریمی سے کیابعید ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter