اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار
اورنگ زیب نے نصف صدی سے زائد مدت تک ہندوستان پر حکومت کی۔ اس دوران وہ مغلیہ سلطنت کو عظیم تربنانے اور ان سرکش ہندؤوں راجاؤں کوسرنگوں کرنے کوششوں میں مصروف رہے جو مغل سلطنت کوکمزوراورشکستہ کرنے کی تاک میں تھے۔اس ہدف کوپوراکرنے کے لیے انہیں مسلسل جنگیں لڑنا پڑیںجو ملک کے مختلف گوشوں میں برپاہوئیں۔اگر اورنگ زیب پہلے اپنے باغی بھائیوں کوزیر نہ کرتے توان کا کوئی ہدف پورانہیں ہوسکتاتھابلکہ ان کاعہد خانہ جنگی ہی میں گزر جاتا اوراسے ناکامی کا مرقع اورعبرت کی تصویرسمجھاجاتا۔
پس اگرچہ بادشاہت سے پہلے خانہ جنگی کے دورمیں سے ان کا اپنے بھائیوں سے لڑنااوراپنے والد کونظر بند کرنا ایک قبیح واقعہ محسوس ہوتاہے مگردرحقیقت یہ اقدامات خوداورنگ زیب کی نگاہ میں بھی ناپسندیدہ تھے ۔ان کے اپنے مکتوبات کے علاوہ تاریخی واقعات بھی اس کی شہادت دیتے ہیں کہ انہیں ناگزیرحالات میں یہ راستہ اختیار کرنا پڑاجس میں کسی بھی حکمران کو موردِ الزام نہیں ٹہرایاجاسکتا۔
اورنگ زیب کی ولادت ۱۵ذی قعد۱۰۲۸ھ (۱۶۱۹ء)کوگجرات میں ہوئی تھی۔ان کی والدہ ارجمند بانو عرف ممتازمحل بڑی پارساخاتون تھیں جن کی قبر پرشاہ جہاںنے تاج محل بنوایا تھا۔
اورنگ زیب نے بڑے راسخ علماء سے تعلیم حاصل کی تھی اورجید عالم بنے۔صوفیائے کرام سے بھی ان کاگہراتعلق تھا۔صوم و صلوٰۃ ،تلاوتِ قرآن اورذکرومناجات کے پابند، مزاج کے متین، بردبار اورسلیقہ شعارتھے۔ جرأت وشجاعت اورعزم واستقامت ان کے نمایاں اوصاف تھے۔
اس زمانے کے بادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھنے کے بڑ ے شوقین تھے۔شہزاد ے اورامیر زادے اپنے اپنے ہاتھیوں کا مقابلہ کراتے اورجس کاہاتھی جیت جاتا،وہ خوشی سے پھولے نہ سماتا۔لڑائی کاطریقہ یہ ہوتاتھاکہ دونوںہاتھیوں کو شراب پلا کراکھاڑے میں چھوڑ دیا جاتاتھا۔ یہ اسٹیڈیم کی طرح ایک کھلامیدان ہوتاتھاجس کے گرد حفاظتی باڑھ ہوتی تھی۔ بادشاہ جھروکے سے اس کا نظارہ کرتاتھا جبکہ بعض شہزادے گھوڑوں پر سوارہوکراسی میدان میں یہ نظارہ دیکھتے تھے۔
اورنگ زیب کی عمرچودہ سال تھی کہ ایک باراسی طرح ہاتھیوں کی لڑائی کرائی گئی۔شاہ جہاں نے حکم دیاکہ شہزادے گھوڑوں پر بیٹھ کر ہاتھیوں کوقریب سے لڑتاہوادیکھیں۔اورنگ زیب بے خوف وخطر اپنے گھوڑے کو ہاتھیوں کے بہت نزدیک لے گئے۔ ایک مست ہاتھی کی نگاہ ان پر پڑی تو اپنے مدمقابل کو چھوڑکر ادھر کی طرف دوڑپڑا۔شاہ جہاں اورامراء یہ دیکھ کر نہایت خوف زہ ہوگئے۔ ہاتھی کوواپس بھگانے کے لیے اس پر آتش بازی کی گئی مگر وہ آگے بڑھتارہا۔اورنگ زیب نے گھوڑے بھاگنے کی بجائے نیزہ سنبھالا اور جونہی ہاتھی اس پر حملہ آور ہوا، تاک کراس کی پیشانی پر وار کردیا۔مجمع میں دادوتحسین کاشوروغل اٹھا۔ لوگ شہزادے کی حفاظت کے لیے چاروں قل پڑھ کر دم کرنے لگے۔ اُدھر نیزے کازخم کھاکر بھی ہاتھی پیچھے نہ ہٹابلکہ مزید مشتعل ہوکر دوبارہ لپکااورشہزادے کو گھوڑے سمیت اپنی سونڈ اور دانتوں کے نیچے دبوچنے کی کوشش کی۔اورنگ زیب نے پھرتی کے ساتھ گھوڑے سے نیچے کود کر تلوارسونت لی اورخود کوبچا کر ہاتھی پر تلوار کے پے درپے وارکیے۔
اتنی دیر میںہاتھی کے مہاوت اور گرز بردارپہلوان ایک اور ہاتھی کو دھکیل کر مشتعل ہاتھی کے سامنے لے آئے۔ہاتھی کواپنامدمقابل دکھائی دیاتووہ اس کی طرف دوڑپڑا۔اس طرح یہ بلاٹلی۔ شاہ جہاںنے اورنگ زیب کوسینے سے لگایا اور وزن کے برابراشرفیاں غریبوں میں تقسیم کرائیں۔اس موقع پر شاہ جہاںنے اورنگ زیب کو کہا ـ : ’’بیٹا!ایسی جگہوں پر اَڑانہیں کرتے۔ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘‘
اورنگ زیب نے عرض کیا:’’جہاں پناہ!غلام کو اللہ نے پیچھے ہٹنے کے لیے پیدانہیں کیا۔‘‘
اورنگ زیب کو باپ کے زمانے میں سخت ترین مہمات پر جاناپڑا۔ پنجاب اور افغانستان کی گورنری ملی توقندہارکے محاذ پرایرانیوں کو اوربدخشاں کی جنگ میں ازبکوں کوناکوں چنے چبوائے۔ان کی عادت تھی کہ جنگ کے دوران بھی نماز کاوقت ہوجاتاتوسواری سے اتر کراطمینان سے نماز ادا کرتے تھے۔بدخشاں کی جنگ کے وقت ان کی عمر ۲۵سال تھی ۔ عین لڑائی کے دوران جبکہ تیروں ، پتھروں اورگولوں کی بارش ہورہی تھی ،ظہر کی نماز کاوقت ہوگیا۔اس وقت بلخ کی ازبک فوج نے مغل لشکر کو گھیرے میں لیاہواتھا۔اس کے باوجوداورنگ زیب نے وہیں گھوڑے سے اترکر نما زکی نیت باندھ لی اورنہ صرف فرض بلکہ سنت اورنوافل کو بھی بڑی دل جمعی سے اداکیا۔ازبک سردارعبدالعزیز خان نے یہ منظر دیکھاتو اپنے سپاہیوں کوجنگ بند کرنے کاحکم دیااورکہا:
’’ایسے شخص سے جنگ ،تقدیر سے جنگ ہے۔جو اللہ سے ڈرتاہے ،وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔‘‘
۱۰۴۵ھ میں اورنگ زیب کو دکن کی گورنری دی گئی ۔اس دوران بھی سخت معرکے پیش آئے اورہرجگہ فتوحات نے اس خوش بخت نوجوان کے قدم چومے ،یہاں تک کہ بادشاہت نصیب ہوئی۔
اورنگ زیب نے عمر بھر کبھی شراب نہیں چکھی تھی ۔بالغ ہونے کے بعد کبھی نغمہ وسرود کے قریب نہ گئے۔سونے چاندی کے برتنو ں میں کبھی کھانانہیں کھایا۔
برصغیر کی تاریخ اورخاندانِ مغلیہ میںاورنگ زیب عالمگیرکی وہی حیثیت ہے جو خلفائے بنوامیہ میں عمر بن عبدالعزیز ،بنوعباس میں ہارون الرشید اورسلاطینِ عثمانیہ میں سلیمان عالی شان کی تھی۔ برصغیر کے مسلمان انہیں فقط بادشاہ نہیں بلکہ ایک خدارسیدہ قائد اوراسلام کے مجاہد حیثیت سے دیکھتے ہیں اوربلاشبہ اورنگ زیب عالمگیر کی زندگی گواہ ہے کہ وہ ایک سچے ،متقی اورخدارسیدہ انسان تھے۔اس بات پر مؤرخین کااتفاق ہے کہ ان جیسی بڑی سلطنت ہندوستان میں کسی کونہیں ملی۔
عالمگیر نے پچاس سال دوماہ حکومت کی جس میں بہت کم وقت پایۂ تخت میں گزرا۔داراشکوہ پر قابو پانے کے بعدوہ شمال کی مختلف مہمات میں مصروف رہے۔ان کادربارکبھی آگرہ ، کبھی دہلی اورکبھی لاہور میں لگتا تھا۔ تاریخ کے صفحات پراکثر وبیشتر ہم انہیںلشکر کے ساتھ کہیں نہ کہیں پڑاؤڈالے دیکھتے ہیں۔ اس رجلِ عظیم کو محلات کے عیش وآرام سے خیموں کی زندگی اور شہ سواری پسند تھی۔ ان کی شہزادگی کابیشتر حصہ بھی محاذوں پر گزراتھا۔مرہٹوں کے خلاف مہم جوئی کا سلسلہ تین عشروں تک چلا۔اس کے ساتھ ساتھ بیجاپور اورگولکنڈہ کی ریاستوں پر بھی چڑھائی جاری رہی۔ان دشمنوں سے نمٹنے کے لیے اورنگ زیب کو زندگی کے آخری پچیس برس جنوبی ہندوستان میں گزارنا پڑے۔
مرہٹوں کو شکستِ فاش دینے کے بعد اور نگ زیب عالمگیر کی سلطنت کی حدودماضی کے تمام شاہانِ ہندوستان سے زیادہ وسیع ہوگئیں۔برصغیر میں کوئی خطہ ایسانہ رہا جہاں مغل تاج دارکاحکم نہ چلتاہو۔ کشمیر سے دکن اورافغانستان سے برما تک مغلیہ سلطنت کاسکہ رائج تھا۔ یہ مغلوں کی فتوحات کا نقطۂ عروج تھاجس کی مثال پہلے تھی نہ بعد میں۔