لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲)
میزبان قاری سید مطیع الرحمن شاہ ہمدانی نے ٹھیک وقت (سوانو)پرمائک سنبھال لیا۔بھائی عثمان قریشی کی تلاوت سے تقریب کاآغاز ہوا۔اس کے فوراً بعد راقم کی گفتگو شروع ہوئی،جوپورے ایک گھنٹے تک جاری رہی۔سامعین نے بہت جم کربات سنی ۔راقم نے سورۃ الرعد کی ایک آیت کے حوالے سے حاضرین سے اس بات کامذاکرہ کیاکہ اللہ کی سنت نفع بخش چیز کوباقی رکھنااوربے کارچیز کو ختم کردیناہے۔ جب تک یہ اُمت دنیامیں نفع رساں رہی ،اللہ نے اسے بلند کیا۔جب یہ اپنی نفع رسانی سے محروم ہوئی تو اغیاراس پر غالب آگئے۔حاضرین نے بات کو پوری توجہ سے سنااورپسند کیا۔
پروگرام کے بعد سید مطیع الرحمن شاہ ہمدانی کے ہاں ضیافت کااہتمام تھا جس میں خاص چیز قصور کے قریب بہنے والے دریائے ستلج کی مچھلی تھی۔ شبان ختم نبوت کے بیس پچیس ساتھی بھی یہاں ملاقات کے لیے آگئے۔ ان میں ادھیڑ عمر، نوجوان،لڑکے، بچے ،شہری دیہاتی سبھی تھے۔ یہ وہ تھے جن کی رات دن کی محنت نے پروگرام کواتناکامیاب بنایا۔
یہاں مطیع الرحمن شاہ صاحب کے والدگرامی جناب سید یحییٰ ہمدانی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی ۔ ان کی آنکھوں نے اکابر کے روشن چہروں کی جی بھر کے زیارت کی ہے جس کاعکس ان کی شخصیت میں نمایاں ہے۔ سید صاحب نے اکابر کے جو واقعات سنائے ،ان میں سے ایک قارئین کے سامنے لاناچاہتاہوں۔سید صاحب نے فرمایا:
’’ بہت پرانی بات ہے،مولاناعبدالشکور دین پوری تب بالکل جوان اورسیاہ ریش تھے۔ ہم نے یہاں قصور میں ایک جلسہ طے کیا۔مشورہ یہ ہواکہ حضرت دین پوری کوبلایاجائے۔ میں نے ایک خط ان کے پتے پر بھیج دیا۔حالانکہ وہ مجھ سے واقف بھی نہیں تھے۔ مگر میں نے خط میں لکھ دیاکہ حضرت جلسے میںآپ کی تقریر کامشورہ ہواہے۔ ہم نے یہ طے کرکے آپ کے نام کااشتہار بھی چھاپ دیا ہے۔ اب آپ کو ضرورآناہے۔
آخر مقررہ تاریخ آگئی۔ رات کو جلسہ تھا،اسی دن زورداربارش شروع ہوگئی ،سخت سردی بھی تھی۔ایساطوفان تھاکہ سوال ہی پیدانہیں ہوتاتھاکہ حضر ت آسکیں۔ عصر کے بعد ہم مسجدمیں بیٹھے تھے۔میں ساتھیوں سے کہہ رہاتھاکہ حضرت توآنہیں سکیں گے،اب کسی اورعالم کابندوبست کرتے ہیں۔ابھی ہم یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ اچانک مسجد کے دروازے سے زور کی آوازآئی:السلام علیکمـ۔دیکھاتو حضرت دین پوری بالکل بھیگے ہوئے اکیلے تشریف لاچکے ہیں۔
اندرآتے ہی انہوںنے سرائیکی میں کہا:تم میں سے یحییٰ کون ہے۔
میں نے کہا:حضرت میں ہوں۔
زورسے فرمایا:توچیز کیاہے۔
میں نے کہا:حضرت میں کچھ بھی نہیں۔ عاجز بندہ ہوں۔
فرمایا:تونے پوچھے بغیر اشتہار بھی چھاپ دیا۔مجھے آنا ہی پڑا۔
یہ سب ازراہِ شفقت تھا۔اس کے بعد رات کوجلسہ ہوااورحضرت نے خوب جم کرتقریر کی۔ یہ قصور میں ان کاپہلا جلسہ تھا۔اس کے بعد توآناجاناشروع ہوگیا۔‘‘
سید یحییٰ شاہ ہمدانی یہ واقعہ سناکر خاموش ہوئے توراقم سوچ میں ڈوب گیاکہ ہمارے اکابراخلاص اوربے نفسی میں کس مقام پر تھے۔ ہم ان کے سامنے شرمندہ ونادم ہونے کے سواکسی قابل نہیں۔
رات بارہ بجے قصور سے واپسی ہوئی۔راستے میں بلھے شاہ کامزار بھی آیاجہاں دوتین دن بعد عرس شروع ہورہاتھا۔ دیر ہوچکی تھی ،اس لیے مزارپر رکے بغیر ہم آگے نکل گئے۔
اگلے دن گیارہ بجے مدرسہ سراج العلوم لاہور میں مولاناشفیع الرحمن کی معیت میں حاضری ہوئی۔مولاناشفیع الرحمن یہیں تدریس کرتے ہیں۔ مدرسے کے مہتمم مولانا سعید احمد صاحب بزرگ آدمی ہیں۔وہ بڑی شفقت کے ساتھ ملے۔نودس مرلے کے مختصررقبے میں وہ بہت اچھے انتظام کے ساتھ مدرسے چلارہے ہیں۔یہاں طلبہ سے مختصر خطاب کاموقع بھی ملا۔مدرسے کے ساتھ ایک نیا پلاٹ بھی لے لیاگیاہے۔ ا س پر تعمیری کام جاری ہے۔ا للہ تعالیٰ تمام مدارسِ دینیہ کومزیدترقی نصیب فرمائے۔
یہاں سے ہم جامعہ اشرفیہ پہنچے۔ عالم اسلام کے اس عظیم تعلیمی ادارے میں راقم کی یہ پہلی حاضری تھی۔ہماری خواہش تھی کہ حضرت شیخ الحدیث مولاناصوفی سرورصاحب کے درسِ حدیث میں شرکت ہوجائے ہم تقریباً بارہ بجے وہاں پہنچے ،اس سے کچھ دیر پہلے حضرت طبیعت کی ناسازی کی بناء پر خلافِ معمول سبق کومختصر کرکے درسگاہ سے گھر تشریف لے جاچکے تھے۔ تاہم جامعہ کے مہتمم حضرت مولانافضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ کی زیارت ہوگئی۔حضرت نے حسن ابدال سے تعلق پر بڑی مسرت کااظہار کیااورفرمایا ،وہاں بھی ہماراایک مدرسہ ہے۔راقم نے عرض کیاکہ میں نے وہاں ایک سال (درجہ اولیٰ)پڑھاہے۔ حضرت بہت خوش ہوئے ،اپنی تصنیفات وتالیفات ہدیے میں دیں اوردعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
جامعہ اشرفیہ سے ہم میانی قبرستان گئے ۔ہمارے اکابرمیں سے بڑے بڑے آفتاب وماہتاب یہاں مدفون ہیں۔ امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری اوراستاذالعلماء حضرت مولاناموسیٰ خان روحانی البازی کی قبور ایک ہی احاطے میں قریب قریب ہیں۔وہاں فاتحہ پڑھی۔
ڈاکٹرمفتی عبدالواحدصاحب کے دارالافتاء میں طلبہ ہمارے منتظر تھے۔ ہم دوبجے وہاں پہنچ گئے۔ایک گھنٹے تک تخصص فی الافتاء اوردورہ ٔ حدیث کے طلبہ سے’’ تاریخ کے اصول ‘‘ کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔اس کے بعد دورے کے طلبہ کاپیریڈتھا۔وہ چلے گئے۔ تخصص کے طلبہ سے مزید کچھ دیر بات چلتی رہی۔ سوال وجواب بھی ہوئے۔ میرے ایک پرانے دوست احمد خلیق جو اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے فاضل ہیں ،وہ بھی اس مجلس میں پہنچ گئے تھے۔کھانے کی مجلس میں ان سے اوردوسرے احباب سے گفتگوہوتی رہی۔
ساڑھے چار بجے ہم یہاں سے رخصت ہوئے۔ مولاناشفیع الرحمن ،بھائی محسن اورلاہورکے ساتھیوںنے حسبِ پروگرام یہیں سے میرے لیے گھر تک لے جانے والی گاڑی کاانتظام کردیاتھا۔ لاہور سے ہم پانچ بجے موٹر وے پرچڑھ گئے۔ اقبال خان جن کی گاڑی تھی،میواتی تھے۔ان کے ساتھ شبان کے دونوجوان عثمان اورنقاش بھی تھے۔ گفتگومیں سفر کاپتانہ چلااور رات گیارہ بجے راقم گھر پہنچ گیا۔
لاہوراور قصور کے اس سفر میںاکابرکی جو شفقتیں اوراحباب کی جو محبتیں ملیں ،ان ایک ایک لمحہ یادگار ہے۔ ایک خاص بات جوقارئین اورروزنامہ اسلام کے کارکنان کے لیے خوشی کاباعث ہوگی، یہ کہ جہاں بھی گیا،وہاں روزنامہ اسلام کی تعریف سنی۔ اکثر جگہ روزنامہ اسلام کومیز پر موجود دیکھا۔اس کی خبروں،کالموں اورمضامین کی پسندیدگی کاتذکرہ سنا۔ اہل اللہ اوراہلِ دین میں یہ مقبولیت ان شاء اللہ عنداللہ بھی قبولیت کی نشانی ہے۔اللہ تعالیٰ روزنامہ اسلام کافیض مزید عام وتام فرمائے۔اس کے کارکنان، منتظمین اورلکھنے والوں کی ہر لحظہ ہرقدم پر مددونصرت فرمائے۔