جرمنی اورعالم اسلام(۱)
ایک دورتھا جب جرمنی عالم اسلام کے دشمن ممالک کی صفِ اوّل میں تھا۔ یہ دورتھاصلیبی جنگوں کا۔ جرمنی کابادشاہ فریڈرک باربروسا ،یورپ کاوہ واحد بادشاہ ہے جس نے دو صلیبی جنگوں میں بھرپور شرکت کی۔ دوسری صلیبی جنگ میں وہ سلطان نورالدین زنگی کے مقابلے پر آیا،وہ دمشق کامحاصرہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔اس وقت دمشق کاقلعہ دار نجم الدین ایوب تھا۔اسی نجم الدین ایوب کابیٹاصلاح الدین ایوبی تھا جس کی عمر اس وقت لگ بھگ چودہ سال تھی۔
قدرت ِ الٰہیہ نے تین عشروں بعداسی صلاح الدین کو شام ومصر کاسلطان بنادیا۔صلاح الدین نے بیت المقدس کو واپس لے کر مسلمانوں کاوقار بلند کردیا۔ اس پریورپ میں ایک آ گ لگ گئی ۔ پادریوںنے بڑے بڑے بادشاہوں کو مسلم دنیا کے خلاف ایسابھڑکایاکہ ہر حکمران اپنی فوج لے کر شام کی طرف جھپٹ پڑا۔شاہانِ یورپ میں اگرچہ برطانیہ کے رچرڈ لائن ہارٹ کانام سب سے زیادہ مشہورہوا،مگر مؤرخین کااتفاق ہے ان میں سے سے بڑالشکر جرمنی کاتھاجس میں اڑھائی لاکھ سپاہی تھے۔ اسلحہ سازی میں بھی جرمنی اس وقت سارے یورپ سے آگے تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے اہم مورچے عکاکو فتح کرنے کے لیے جرمنی سائنسدانوںنے جو عجیب وغریب مشینیں عین حالت جنگ میں ایجاد کیں ،عرب مؤرخین ان کاذکر بڑی حیرت اورتعجب سے کرتے ہیں۔
صلاح الدین ایوبی نے یہ جنگ بھی جیت لی اورباقی یورپی لشکروں کی طرح جرمن بھی واپس چلے گئے۔یہ بارہویں صدی عیسوی(چھٹی صدی ہجری) کا واقعہ ہے۔
حقیقت یہ کہ نہ صرف جرمنی بلکہ باقی یورپی ممالک کو بھی عالم اسلام کے خلاف برانگیختہ کرنے والی اصل لابی کیتھولک پادریوں کی تھی جواسلام اورمسلمانوں سے سخت بغض رکھتے تھے۔ یہ بڑے گھمنڈی ، متعصب ،تنگ نظر اورخود غرض قسم کے لوگ تھے اوردرحقیقت انہیں اپنے شہریوں اورعوام کی فلاح وبہبود سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ انہوںنے دین کو بھی کمائی کاایک دھندابنارکھاتھا۔کلیسا غریب کو پیدائشی گناہ کے احساس جرم میں جکڑتاتھااورامراء سے رقوم لے کر انہیں ہر بڑے سے بڑے گناہ کا معافی نامہ دے دیتاتھا۔
جب صلیبی جنگوں میں یورپی ممالک کومسلسل شکستیں ہوئیں اورجنگی اخراجات کی وجہ سے وہ معاشی طورپر تباہ ہوگئے تو یورپ کے بعض بالغ نظرلوگ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہے کہ اس تمام تر نقصان کے ذمہ دار پادری ہیں ۔یہ سوچ سب سے پہلے جرمنی میں پیداہوئی جوایک سائنسی ذہن رکھنے والا ملک تھا مگر دوصدیوں تک پادریوں کے اندھے مذہبی تصعب نے اسے مسلم دنیا سے جنگوں میں دھکیل کر کچھ سوچنے سمجھنے سے محروم رکھاتھا۔مگر ٹھوکریں کھاکر جرمنی سب سے پہلے سنبھلا۔وہاںکے ایک پادری مارٹن لوتھر نے پہلی بار کلیسااورپادریوں کے احتساب کانظریہ عام کیا۔اس نے پیسے لے کرمعافی نامے تقسیم کرنے کوایک نیچ حرکت قراردیاجو معاشرے میں بدعنوانی کاسب سے بڑامحرک تھی اورجس کی وجہ سے امراء کے لیے تمام جرائم کادروازہ کھلاہواتھا۔
اس زمانے میں کیتھولک پادریوں کااثرورسوخ اتنا بڑھاہواتھاکہ ان کے مقابلے میں کسی تحریک کا پنپنا بظاہر ناممکن تھا۔یورپ کے بڑے بڑے حکمران ان کے چیلے تھے۔مسلمانوںسے بدترین تعصب رکھنے والے کیتھولک حکمران فرڈی ننڈ اوراس کی ملکہ ازابیلا نے کچھ عرصے پہلے ہی اسپین کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کاخاتمہ کیاتھاجس کے بعد انہی پادریوںنے ’’محکمہ احتساب وتفتیش ‘‘ قائم کرکے اسپینی مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنانے کی مہم شروع کردی تھی ۔فرڈی ننڈ کے بعدا س کے جانشین چارلس نے خاندانی نام ونسب ، امریکا سے ملنے والی سونے چاندی کی کانوں سے حاصل شدہ دولت اور کیتھولک چرچ کے بخشے ہوئے مذہبی جوش وخروش سے کا م لیتے ہوئے جرمنی، فرانس اوراٹلی سمیت یورپ کے بہت بڑے رقبے کو اسپین میں شامل کرلیا تھا۔ ان حالات میں کیتھولک چرچ کے مقابلے میں کھڑاہونا ،خودکشی کے مترادف تھا مگر مارٹن لوتھر نے اپنی تحریک جاری رکھی،جو فرقہ احتجاجیہ (پروٹیسٹینٹ)کے نام سے مشہورہوگئی۔لوتھرنے عبادت گاہوںمیں دولت کے عوض مغفرت ناموں کی تقسیم کوغلط قراردیا،بت پرستی سے منع کیااورمذہبی پیشواؤں کی اجاردہ داری کوچیلنج کیا۔جرمنی اس تحریک کامرکز بنا،فرانس اورآسٹریا میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہوئی اوربہت سے معتدل مزاج لوگوںنے اسے تیزی سے قبول کرلیا ۔پھر کچھ امراء اور شہزادے بھی اس تحریک میں شریک ہوگئے جو اس کے باوجود اس تحریک کواٹلی ،اسپین اورپرتگال کے کیتھولک حکمرانوں کے بے رحم پنجے سے تحفظ کے لیے کسی بڑی طاقت کے بیرونی سہار ے کی سخت ضرورت تھی۔
یہی وہ وقت تھاجب عالم اسلام اورجرمن رہنماؤں میں پہلی بار ایک تعلق قائم ہوا۔ پروٹسٹنٹ تحریک کاسفیر استنبول پہنچااوراس نے ترک خلیفہ سلطان سلیمان اعظم قانونی سے درخواست کی کہ وہ ان کاحامی بن کرانہیں کیتھولک پادریوں اورشاہ چارلس کے عتاب سے بچائے۔
سلیمانِ اعظم نے دانش مندانہ فیصلہ کیااورپروٹسٹنٹ تحریک کی سرپرستی کی قبول کرلی۔ پروٹسٹنٹ سفیر استنبول کاچکرلگاکرواپس یورپ پہنچاتواس کے پاس بابِ عالی کامراسلہ تھا جس میں پروٹسٹنٹ مذہب قبول کرنے والوں کی حمایت کااعلان کیاگیاتھا۔یوں چارلس جوپروٹسٹنٹ تحریک کوبالکل کچل دیناچاہتاتھا،اپنے ارادے میں ناکام ہوگیاکیونکہ سختی برتنے کی صورت میں جرمن رہنما،ترکی کی پشت پناہی کے ساتھ اس کے خلاف بغاوت کردیتے ۔اپنی عظیم سلطنت کوتقسیم سے بچانے کے لیے ۳، اکتوبر۱۵۵۵ء کوچارلس نے بادلِ نخواستہ ملکی قانون میں پروٹسٹنٹ مذہب کی گنجائش کاقانون منظورکرلیا۔اس کے بعد پروٹسٹنٹ تحریک آزادی سے پروان چڑھی ،آسٹریااورجرمنی سمیت بعض یورپی ممالک کایہی سرکاری مذہب بن گیا۔پروٹسٹنٹ چرچ کوماننے والے یہ عیسائی حکمران خصوصاً جرمن سلطنتِ عثمانیہ کے شکر گزار بن گئے ۔وہ جانتے تھے کہ اگرترکی کیتھولک اسپین اورپاپائے روم کے استبداد پر کاری ضربات نہ لگاتا، اورپروٹسٹنٹ فرقے کی حمایت نہ کرتا تو تاجدارِ اسپین اور کلیسائے رومابڑے اطمینان سے اس تحریک کا گلا گھونٹ دیتے۔
اگرچہ اس کے بعدجرمنی اورترکی کے تعلقات یکدم تیزی سے آگے نہیں بڑھے ،جس کی وجہ یہ تھی کہ جرمنی کواسپینی استعمار نے بہت کمزور اورمنتشر کردیاتھا۔تاہم جرمن عالم اسلا م کے خلاف کسی جنگ کا حصہ بھی نہیں بنے۔وہ صدیوں تک چھوٹی چھوٹی جاگیروں اورریاستوں کی شکل میں غیر متحد رہے ۔ جن کاالحاق کبھی اسپین ،کبھی فرانس اورکبھی اٹلی سے ہوتارہا۔ یہی کیتھولک حکومتوں کی سیاست تھی ۔
مگر جرمن قوم تحقیق اورسائنس کے بل بوتے پر آگے بڑھی اورنپولین کے زوال کے بعد وہ فرانس کے تسلط سے آزاد ہوگئی ۔ حیرت انگیز طورپر جرمنوںنے نصف صدی سے بھی کم مدت میں دنیا کی بہترین فوج اوربہترین ٹیکنالوجی کے حامل ملک کی حیثیت حاصل کرلی۔
اس کے ساتھ ہی سلطنتِ عثمانیہ اورجرمنی میں اتحادوتعاون کاایک نیا دور شروع ہوا۔ ترکوںنے یورپ سے کئی محاذوں پر شکستوں کے بعد جرمنی سے حربی وعسکری نظام لیا۔ جرمن سائنسدانوں کے اشتراک سے جدیداسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے جس کے بعد اس کی فوج ایک بارپھر دنیا کی مضبوط ترین فوجوں میں شمار کی جانے لگی۔
اسی باہمی تعلق کی وجہ سے ترکی اورجرمنی نے مل کر جنگ ِ عظیم اوّ ل میں مشترکہ محاذ بنایا۔ افسوس کہ اس جنگ میں یورپی اتحاد جیت گیا ۔شکست کے نتیجے میں جرمنی اورترکی پر اپنے فیصلے نافذکیے گئے ۔ جرمنی سے بادشاہت اورترکی سے خلافت ختم کردی گئی۔ (جاری ہے)