Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

84 - 102
 تہذیب حجاز ی کامزار (2)
یہاں تاریخ کی ایک اورعظیم شخصیت ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔یہ قاضی اسد بن فرات  رحمہ اللہ تھے۔ بیک وقت بلند پایہ فقیہہ، نابغۂ روزگار محدث، انصاف پسند قاضی اور مجاہد ۔۱۴۲ھ میں پیدا ہوئے۔ ایک مجاہد گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ دو برس کے تھے کہ ان کے والد انہیں لے کر افریقہ جانے والے اسلامی لشکر کے ساتھ شامل ہوئے۔اسد بن فرات کا بچپن وہیں گذرا، ابتدائی علوم شمالی افریقہ کے علماء سے حاصل کئے، جوان ہونے پر مدینہ منورہ پہنچے اور امام مالک رحمہ اﷲ سے مؤطا  کادرس لیا، فقہی تشریحات کے ساتھ مؤطا کی احادیث سنیں، پھر بھی تشنگی دورنہ ہوئی تواستادسے اجازت لے کر کوفہ چلے آئے اور امام ابو حنیفہ کے جانشینوں امام محمد رحمہ اﷲ اور امام ابو یوسف رحمہ اﷲسے فقہ حنفی  میں مہارت حاصل کی ۔ تین جلیل القدر ائمہ سے فیض پاکر قاضی اسد بن فرات ’’مجمع البحار‘‘ بن گئے ۔ مشرق و مغرب میں ان کی مقبولیت یکساں تھی۔عراق سے وہ مصر پہنچے اور وہاں فقہ مالکی کی عظیم کتاب ’’الاسدیہ‘‘ مرتب کی جس کی مشہور نقل ’’المدونۃ الکبریٰ‘‘ کے نام سے مقبولِ عام ہے جسے فقہ مالکی کی سب سے پہلی اور معتبر کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ مصر سے  وہقیروان (افریقہ) واپس آئے۔۲۰۳ھ میں انہیں قیروان کا قاضی بنا دیا گیا۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں، مالکی و حنفی نسبتوں کے جامع ہونے کی وجہ سے ہر دو طبقوں کے فقہاء ان کے فتاوٰی پر اعتماد کرتے تھے۔
یہ وہ دن تھے کہ قیروان کاحکمران خاندان بنواغلب سسلی کے قزاقوں سے پریشان تھا۔یہاں رومی بازنطینی حکمرانوں کا قبضہ تھا اور اس جزیرے کے نصرانی آئے دن مسلم مقبوضات پر حملے کرتے رہے تھے۔ قاضی اسد بن فرات رحمہ اﷲ ایک عرصے سے بحیرۂ روم کے اس زرخیز و شاداب جزیرے کو اسلامی مقبوضات میں لانے کے لئے بے تاب تھے ۔ اس سلسلے میں وہ حکام کو جھنجھوڑتے رہتے تھے۔
بالآخر قیروان کے گورنر زیادۃ اﷲ بن ابراہیم نے ان کے مشورے کے مطابق صقلیہ پر حملے کا فیصلہ کرلیا۔ چوںکہ مشاورت میں جنگی منصوبہ بندی قاضی اسد بن فرات کی رائے کے مطابق طے ہوئی تھی اس لئے گورنر کو لشکر کی قیادت کے لئے ان سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی اورنظر نہ آئی۔ جب اس نے قاضی صاحب کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو قاضی صاحب کو حیرت ہوئی اس لئے کہ قاضی کے منصب کے ساتھ ساتھ سپہ سالاری کا عہدہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا، تاہم گورنر نے انہیں مطمئن کرتے ہوئے کہا: ’’آپ قاضی کے منصب پر بھی برقرار رہیں گے اور لشکر کی قیادت بھی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ آپ کو ’’قاضی امیر‘‘ کہا جائے گا۔‘‘
مؤرخین لکھتے ہیں: ’’افریقہ میں اس سے قبل کوئی ان دو عظیم عہدوں پر بیک وقت فائز نہیں ہوا تھا۔‘‘ 
۱۵ ربیع الاوّل ۲۱۲ھ کو قاضی اسد بن فرات رحمہ اﷲ ۷۰۰ بحری جہازوں کا بیڑا لے کر قیروان کے ساحل سے بحیرۂ روم میں اُترے۔ بیڑے میں ۷۰۰ سوار اور ۱۰ ہزار پیادہ مجاہدین تھے۔
تین دن کے بحری سفر کے بعد ۱۸ ربیع الاول کو اسلامی لشکر صقلیہ کے ساحلی شہر ’’ماذر‘‘ کے ساحل پر لنگر انداز ہوا۔انہوںنے کئی معرکوں میں حریف کو پسپا کرکے صقلیہ کے کئی شہر فتح کیے اور انہیں مسلمانوں کی مضبوط چھاؤنیوں میں تبدیل کردیا۔
  آخرکار صقلیہ کا نصرانی حاکم مائیکل قیصر فیصلہ کن جنگ کے لیے تیارہوا۔اس نے روم اور وینس کے بادشاہ سے امدادی منگوائیں اور ڈیڑھ لاکھ سپاہی لے کر مقابلے پر نکل آیا۔یہ دیکھ کر بہت سے مسلمان گھبراہٹ کا شکار ہونے لگے۔قاضی اسد بن فرات رحمہ اﷲ نے مسلمانوں کوحوصلہ دلانے کے لئے اس خوش الحانی سے سورۂ یٰسین کی تلاوت کی کہ سب کے دل ایمان کے جوش اورجنت کے شوق سے لبریز ہوگئے۔اس کے بعد قاضی صاحب نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی جس میں مجاہدین کو للکارتے ہوئے کہا: ’’مجاہدو! یہ وہی ساحلوں پر ڈاکہ زنی کرنے والے عجمی بھگوڑے ہیں جو چھپ کر یہاں جمع ہوگئے ہیں… یہ بھگوڑے غلام ہیں۔ خبردار ان سے مرعوب نہ ہونا۔‘‘
اس کے بعد وہ رجز پڑھتے ہوئے رومی لشکر کی طرف لپکے۔ اس جنگ میں رومیوں نے لشکرِ اسلام کے قائد کو شہید کرنے کے لئے پورا زور لگا دیا، انہیں یقین تھا کہ قاضی صاحب کا کام تمام ہوتے ہی مسلمان حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے، مگر اﷲ تعالیٰ نے قاضی صاحب کی حفاظت کی، وہ رومیوں سے لڑتے لڑتے بری طرح گھر گئے مگر پوری تندہی سے ہر حملے کا دفاع کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے کئی کاری زخم کھائے، وہ ہاتھ جس میں لشکر کا جھنڈا تھا خون سے رنگین ہوگیا مگر جھنڈا گرنے نہ دیا۔ ان کی ہمت و استقلال کے نتیجے میں آخرکار مسلمان یہ معرکہ جیت گئے اور جزیرے کا بڑا حصہ فتح ہوگیا۔
کچھ مدت بعد قاضی صاحب نے مزید پیش قدمی کی اور ’’سرقوسہ‘‘ کا محاصرہ کرلیا۔ یہاں بھی سخت لڑائی ہوئی جس میں قاضی صاحب شدید زخمی ہوئے اور انہی زخموں کی تاب نہ لاکر آخر کار ربیع الثانی ۲۱۳ھ (۸۲۸ء) میں شہادت پائی اور اسی جزیرے میں دفن ہوئے۔
قاضی اسدبن فرات کی شہادت کے بعدبھی رومیوں سے معرکے جاری رہے۔صقلیہ پچیس ہزارسات سومربع کلومیٹر رقبے کا بہت بڑاجزیرہ تھاجس میں درجنوں شہر تھے۔بنواغلب نے تیسری صدی ہجری کے وسط تک جزیرے کااکثر رقبہ فتح کرلیاتھا۔
صقلیہ یونانی اوررومی دورمیں اگرچہ فلسفیوں،شاعروں اورطبیبوں کاخطہ رہا تھا مگر مسلمانوں کی آمد سے قبل،یہ ادبی و فنی آثار پیوندِ خاک ہوچکے تھے اورسوائے قدیم عمارتوں اورکھنڈروں کے یہاں کوئی شے قابلِ دیدنہ تھی۔حکمران اور مذہبی اشرافیہ اپنی بالادستی کے لیے عوام کوجاہل رکھنا ناگزیرسمجھتے تھے۔ اذہان پر جمود طاری تھا اورفکر ونظر پر پہرے لگے تھے۔بنواغلب کے دورمیں مسلمانوں کے قدم،اس جزیرے میں جہاں جہاں پڑے،وہاں علوم وفنون کی بہار آگئی۔بقول اقبال
اک جہانِ تازہ کاپیغام تھا جن کاظہور 
کھاگئی عصرِ کہن کوجن کی تیغِ ناصبور
مردہ عالم،زندہ جن کی شورشِ قُم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیرِ توہّم سے ہوا 
 فاتحین کے ساتھ سینکڑوں علماء یہاں آکر بس گئے جن کی اکثریت اہلِ سنت اور فقہِ مالکی کی پیروکارتھی ۔جابجا مساجد ومدار س قائم ہوگئے ،جن سے متصل کتب خانوں اور حجروں میں تفسیر،حدیث، فقہ ،اصولِ دین ،تاریخ اورشعر وادب پر قابلِ قدر کام ہوتارہا۔۔
علمی میدان میں ان کامیابیوں کے باوجود،بنواغلب کی فتوحات کادھارا،آخری حدودکے قریب پر پہنچ کررُک گیا ۔اسی دوران رومیوں نے جزیرۂ مالٹاسمیت جنوبی اٹلی کے بعض شہرمسلمانوں سے چھین لیے۔ تیونس میں بنواغلب کا عمررسیدہ حکمران ابراہیم بن احمد اس صورتحال سے بہت پریشان تھا۔ آخر اس نے اپنے ادھیڑعمر بیٹے ابوالعباس کو ۲۸۷ھ میں صقلیہ کاگورنربنادیا۔ابوالعباس بڑا دلیر اورتجربہ کارانسان تھا۔ا س نے جنوبی اٹلی پر یلغار کی اورکئی شہر فتح کرنے کے بعد روم کی فصیل تک پہنچ گیا۔پوپ یوحنا نے سالانہ خراج دینا منظور کرکے بڑی مشکل سے مسلمانوں کو منایا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter