Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

72 - 102
بانی ٔ  رُہتاس 
مدت سے آرزوتھی کہ قلعۂ رُہتاس دیکھوں۔شیرشاہ سوری کانام جب بھی آتاہے تو اس کے عدل وانصاف ،اس کے حسنِ انتظام اوراس کی جرنیلی سڑک کے ساتھ، قلعہ رہتاس کانام بھی ضرور لیا جاتاہے۔سناتھاکہ ضلع جہلم میں واقع یہ تاریخی عمارت ،ایک پوری تہذیب کواپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ 
دس مارچ بروز جمعرات راقم اوربرادرم رشیداحمد ملک ریاض صاحب کے ساتھ اس آرزوکی تکمیل کے لیے روانہ ہوئے۔ فیض آباد سے کچھ آگے روات جانے والی سڑک پر قاری محبوب الہٰی بھی ہمارے منتظر تھے۔ انہیں ساتھ لے کرآگے کاسفر شروع ہوا۔ 
قلعہ رہتاس ، دینہ سے چند کلومیٹر دورہے۔دینہ میں قاری صاحب کے ایک شاگرد،ادارہ علوم اسلامی کے فاضل مولانا عمران حارث صاحب رہتے ہیں ۔ قاری صاحب نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔وہ ہماری میزبانی اوررہنمائی کے لیے کمربستہ ہوگئے۔
ہم دوبجے دینہ پہنچے۔عمران حارث صاحب کے ہاں کھانے سے لطف اندوز ہوکر انہی کی رہنمائی میں قلعہ رہتاس کارُخ کیا۔ جی ٹی روڈ سے کوئی چھ سات کلومیٹر کاراستہ ہے۔قلعے سے کچھ دورایک چوڑے پاٹ والی ندی’’نالہ کس‘‘ بل کھاتی چلی جاتی ہے۔پہلے یہاں لکڑی کاپل تھاا ورقلعے تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔مگر پرویز مشرف کے دورمیں یہاں ایک شاندار برج بنادیاگیاجسے پاکستان کاسب سے بلند پل شمار کیاجاتاہے۔اسے شیرشاہ سوری پل کانام دیاگیاہے۔
ہم اس پل سے گزر کر چند موڑ مڑنے کے بعد قلعہ رہتاس کے سامنے تھے۔قلعے کاعظیم الشان دروازہ دیکھ کرہم حیران رہ گئے۔ پانچ صدیاں گزرنے کے باوجود ،اس کی آن بان اسی طرح ہے۔ ہم  دس پندرہ منٹ تک اسی کوتکتے رہے ۔ آخر مولاناعمران حارث صاحب نے یہ کہہ کر ہمیں آگے بڑھایاکہ ابھی تو پوراقلعہ دیکھناباقی ہے۔اندر چلیے۔
موسم بڑا پرکیف تھا۔فضا ابرآلودتھی۔سب سے پہلے رہتاس گاؤں ہمارے سامنے آیا۔پھرایک چوک پر پہنچے تو گاؤں کاچھوٹاسا ہائی اسکول ہمارے سامنے تھاشیرشاہ کے بیٹے سلیم شاہ نے اپنے دورمیں قلعے کے اردگرد بسنے والوں کوقلعے کے اندر رہنے کی اجازت دے دی تھی ۔ان میں سپاہی بھی تھے اورمزدور بھی ۔اس طرح قلعے میں یہ گاؤں آبادہوگیا۔
ہم قلعے کے میوزیم تک پہنچے۔ غالباً یہ قلعے کی دفتری عمارات تھیں جن میں اب قدیم اسلحہ ،سکے اورکچھ مخطوطات سجادیے گئے ہیں۔ شیرشاہ سوری کے احوالِ زندگی بھی الگ الگ چارٹوں پر آویزاں کردیے گئے ہیں۔ 
قلعے کی باؤلی دیکھنے کے بعد ہم سبزہ زارکاچکر لگاتے ہوئے ایک اونچے برج پر چڑھ گئے۔ یہاں سے دوردورتک کانظارہ کیا جاسکتا تھا۔ چار سوایکڑاراضی پرپھیلے ہوئے قلعے کی کئی شاندار عمارتیں دکھائی دے رہی تھیں۔ ہمارے ایک طرف اکبر کے سپہ سالار مان سنگھ کی تعمیر کردہ خوبصورت حویلی تھی جواس قلعے کی سب سے بلند اوردلکش عمارت ہے۔اس کے پیچھے ایک اورگنبدنماعمارت ہے جسے رانی محل کہاجاتاہے۔ان سب کے پیچھے قلعے کی قدیم عبادت گاہ ’’شاہ مسجد ‘‘ تھی۔ہم اس مسجدتک گئے،جو آج بالکل ویران ہے مگر اس کے محرابی دروازے اورسنگی دیواریں گواہ ہیں کہ یہاں کبھی بڑے بڑے امراء اورعلماء ومشایخ سجدہ ریز رہے ہیں۔ 
میں کچھ دیر کے لیے مسجد سے نکل کر اس ماحول میں چلاگیا جہاں شیر شاہ کے حکم سے قلعے کی تعمیرہورہی تھی ۔شیرشاہ نے یہ حکومت مغلوں سے چھینی تھی ۔اسے مغلوں اوران کے حامی گکھڑ قبائل کے حملوں کاخدشہ رہتاتھا،ان کی روک تھام کے لیے اپنی حکمرانی کے دوسرے سال اس نے یہاں اس قلعے کی تعمیر شروع کرائی۔ جو جگہ اس نے منتخب کی وہ مثالی تھی۔ایک طرف کوہستانِ نمک ۔دوسری طرف پوٹھوہار۔ دوسمتیں برساتی نالوں سے گھری ہوئیں۔ایک طرف نالہ کس ۔دوسری طرف نالہ گھان ۔تیسری سمت گہری کھائیاں ۔چوتھی طرف گھناجنگل ہے۔جب قلعے کی تعمیر کاحکم دیاگیا توگھکڑ سرداروں کی ہیبت کی وجہ سے ناظمِ تعمیرات کوبقدرِ ضرورت مزدور نہیں مل رہے تھے۔ اس لیے غیرمعمولی اجرت مقررکرنی پڑی جو ایک سرخ اشرفی یومیہ تھی۔اس کے بعد مزدور وں کی قطاریں لگ گئیں۔اتنا بڑاقلعہ چارسال سات ماہ میں مکمل ہوگیا کیونکہ تعمیر میں تین لاکھ مزدوروںشریک تھے۔اگر ایک ماہ میں پچیس دن کام کے لگائے جائیں تب بھی تعمیری ایام ۱۳۷۵ بنتے ہیں ۔یوں صرف مزدوری کی مد میں ۴۱کروڑ ۲۵لاکھ اشرفیاں خرچ ہوئی تھیں۔
 اس قلعے کوپنجاب وسندھ کے دیگر قلعوں سے ممتازبنانے والی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے چھوٹی اینٹوںکی بجائے،بڑے بڑے تراشیدہ مربع پتھروں سے بنایاگیاہے۔شیرشاہ کی اصل جرنیلی سڑک ،اس قلعے کے عین سامنے سے گزرتی تھی، جو مٹ چکی ہے۔
اس قلعے کی ایک منفردبات یہ ہے کہ اتنے بڑے رقبے اورفصیل کے باوجوداندررہائشی عمارتیں بہت کم بنوائی گئی تھیں۔ ظاہرہے کہ گنتی کی یہ چند عمارتیں امراء کے لیے ہی تھیں۔یہاں جو پچاس ہزارسپاہی تعینات کیے گئے تھے۔یقینا وہ خیموں یاکچے مکانات میں رہتے ہوں گے۔
میں سوچ رہاتھاکہ کیساتھا وہ شخص جس نے صرف پانچ سال حکومت کی اوراتنے کام کرگیاکہ آج تک وہ دلوں میں زندہ ہے۔اس کااصل نام عام لوگ نہیں جانتے مگر شیرشاہ سے کوئی ناواقف نہیںَ  
اس کا اصل نام فرید خان تھا،وہ 1486ء میں حسن خان سوری نامی ایک پٹھان رئیس کے ہاں پیدا ہوا تھا۔ حسن خان ،جون پور کے راجا کی فوج کاجرنیل تھا۔اس کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے ایک افغان بیوی سے فرید خان پیداہوا۔ حسن خان کی رہائش ’سسرام‘ میں تھی ،وہیں فریدخان کی پرورش ہوئی۔ فرید بڑاذہین،دلیر اوردانش مندبچہ تھا۔ لڑکپن سے مہم جوئی ،سیروشکاراورفنونِ حرب کا رسیا بن گیا۔نوجوانی میں وہ جون پورکے گورنر کے پاس ملازم ہوگیا جس کی اس کے والد سے اچھی راہ ورسم تھی۔اس دورکاجون پور ایک علمی وادبی مرکزتھا جس سے فریدخان نے پوری طر ح استفاد ہ کیا۔اس نے قاضی شہاب الدین سے کافیہ اوراس کی شروحات پڑھیں۔ گلستان ، بوستان اور سکندرنامہ کے علاوہ فلسفے اور تاریخ کی کئی کتب کی تعلیم حاصل کی ۔یہ کتب اسے حفظ تھیں۔
بادشاہت کے دورمیں ایک باراس کی ملاقات شیخ شرف الدین یحیٰی منیری رحمہ اللہ کے گھرانے کے ایک پیرزادے سے ہوئی ۔شیرشا ہ نے اس سے نحو کا ایک مسئلہ پوچھا ۔صاحبزادے جواب نہ دے سکے۔ شیرشاہ نے اسے وہیں کافیہ کاپورامتن زبانی سنادیا۔پھرکہا:’’میاں!تم نے اپنا گھرانہ کھو دیا۔ میں تو دنیا کے کاموں میں منہمک ہوں، پھر بھی اتنا کچھ یاد ہے۔ شاید تمہیں علم کا چسکا نہیں لگا ۔ ‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter