سمندری شیر(2)
رئیس بن احمد نے فوری طورپرایک فیصلہ کیا ۔ منادی کردی گئی کہ تمام مسافر ساحل پر اترنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ سن کر مسافروں میں کہرام مچ گیا۔ان میں اکثریت عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اورمریضوں کی تھی۔ کوئی بھی اس جہنم میں دوبارہ اترنے کے لیے تیارنہ تھاجہاں ملک سے بھاگنے کی کوشش کی سزا آگ کی بھٹیوں پر الٹا لٹکاکر دھیرے دھیرے کباب بنانے کے سواکچھ نہ تھی۔
رئیس بن احمد نے سسکتے بلکتے مسافروں کوبمشکل چپ کرایا اور سمجھایا کہ وہ ہسپانوی بحریہ سے لڑنے کے لیے اس اقدام پرمجبورہے۔فتح کے بعد وہ انہیں دوبارہ جہاز میں سوارکرکے محفوظ مقام تک لے جائے گا۔ا س نے تیزی سے جہازوںکوقریبی ساحل پرلنگرانداز کیا اور تمام مسافروں کو کنارے پر اتار دیا۔ اس کے بعد جہازوں کو لڑنے کی ہیئت میں صف بستہ کرکے ہسپانوی بحریہ کاسامناکیا۔
ساحل کے قریب ایک ہولناک جنگ شروع ہوئی۔ دوطرفہ گولہ باری کی گھن گرج کے ساتھ ، کنارے پر موجود ہزاروں پناہ گزینوں کی آہ وبکا بھی میلوں دوردورتک سنائی دے رہی تھی جو دھاڑیں مارمارکر اللہ سے عثمانی افواج کی کامیابی کی دعائیں کررہے تھے۔ ترک سپاہی جوپوری تندہی سے لڑرہے تھے، اپنے آہنی اعصاب کے باوجودیہ آہ و زاری سن کرباربارآبدیدہ ہوجاتے اورپہلے سے بڑھ کرجوش وخروش کے ساتھ لڑنے لگتے ۔آخر کاراللہ نے ترکوں کوفتح دی۔ ہسپانوی اپنے نوجہاز ترکوں کے قبضے میں چھوڑکربھاگ نکلے۔رئیس بن احمد نے بیڑے کو دوبارہ لنگرانداز کیااورپناہ گزینوں کولے کر منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔جب وہ الجزائر پہنچا تو خیرالدین پاشا نے اس مہم کاحال سن کر ا س کی پوری تفصیل سلیمان اعظم کو لکھ بھیجی،جہاں اس کامیابی کوبے حد سراہاگیا۔
ابھی شمالی افریقہ میں اسپین کے کچھ اڈے باقی تھے۔ ان میں سے ’’مستغانم ‘‘ بہت اہم تھا۔ 1528ء میں پاشا نے حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔پھر اس نے اس علاقے کے قلعے سر کیے جہاں اس کے بھائی عروج کو شہید کیا گیا تھا۔
اس زمانے میں یورپ میں کپتان اینڈریا ڈوریا(Andrea Doria)کاطوطی بول رہاتھا۔ اس کی عمر70 سال تھی اور بحری جنگوںمیں وہ لاثانی سمجھا جاتا تھا۔وہ بار بار افریقی صوبوں اورجزیروں پر حملے کررہاتھا۔خیرالدین پاشا نے ایک نیا بحری بیڑا تیار کیا تاکہ اینڈریا ڈوریا کے حملوں کی روک تھا م کی جاسکے ۔
اُدھر اسپین کے بادشاہ چارلس پنجم نے خیرالدین پاشا کاقصہ تمام کرنے کے لیے اپنی کمان میں ایک بہت بڑی مہم شروع کردی۔ وہ خود پانچ سو جہازوں اورتیس ہزارسپاہیوں پرمشتمل بحری بیڑا لے کربڑی شان وشوکت کے ساتھ برسلونہ کی بندرگاہ سے چلا۔29مئی 1535ء کویہ فوج اچانک تیونس کے ساحل پر اتر پڑی اور دارالحکومت کا محاصرہ کرلیا۔ خیرالدین پاشابارہ ہزارسپاہیوں کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گیا۔مگر مقامی لوگ خوفزدہ ہوچکے تھے۔ تیونس کے چھ ہزاربربر رضاکاروں نے جیل میں قید دس ہزارنصرانیوں کوآزاد کردیااورخودنصرانی لشکر میں شامل ہوگئے۔
پاشا نے دیکھ لیاکہ اب مزید مزاحمت نہیں ہوسکتی تھی ،اس نے حریف کا گھیرا توڑ کر بحفاظت نکل جانے کے لیے جارحانہ حملوں کافیصلہ کیامگرچارلس نے جو ہرقیمت پر خیر الدین پاشا کو زندہ گرفتار کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھا، بہت سخت ناکہ بندی کررکھی تھی اس لیے خیرالدین پاشا پہلے حملے میں اڑھائی ہزار جوان گنوا کر واپس آیا۔ دوسرے حملے میں وہ 7200سپاہی لے کرنکلامگر اس بار بھی دشمن کاگھیر انہ ٹوٹ سکا۔ پاشا پسپاہوکر واپس شہر کی طرف آیاتویہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ شہر میں بغاوت ہوچکی ہے۔نصرانی قیدی شہر پر مسلط ہوکر اس کے دروازے بند کرچکے ہیں ۔یوں پاشا دونوںطرف سے نرغے میں آگیاتھا۔
خیرالدین پاشا نے پھر بھی ہتھیار نہ ڈالے ۔اس نے زندگی اورموت سے بے پرواہوکرحریف پرایسا برق خیز حملہ کیا کشتوں کے پشتے لگ گئے ،ہسپانوی جوکسی سے بھی اس حدتک جرأت کی توقع نہیں رکھتے تھے، دہشت زدہ ہوکر پیچھے ہٹنے لگے اورپاشااپنے ساتھیوں سمیت ان کاگھیر اتوڑکرنکل گیا،نصرانیوں نے تعاقب کیامگر پاشا اپنے جتھے سمیت ایسا غائب ہوا کہ لگتاتھااسے زمین نگل گئی ہے۔چارلس ،اس مردِ مجاہد کے بچ نکلنے پر غصے سے بل کھاکررہ گیااوراپنے سالاروں کو برابھلاکہہ کر اپنی بھڑاس نکالنے کے سواکچھ نہ کرسکا۔فتح کے بعدعیسائیوںنے تیس ہزارشہریوں کوقتل کیا،دس ہزارکو غلام بنا کر بیچ دیا، متعدد مساجد کونذرآتش کردیا، کتب خانے برباد کردیے،جامع مسجد کے سامنے کتابوں کے اتنے ڈھیر پھینکے گئے کہ انہیں روندے بغیرکوئی مسجدتک نہیں جاسکتاتھا۔طرح طرح سے شہریوں کے ایمان،آبرواورعزت کو کچلنے کی کوشش کی گئی ۔چارلس جب تیونس میں داخل ہواتو شہر قصاب خانے کامنظر پیش کررہاتھا۔مغربی مؤرخ ہیمر لکھتاہے کہ انہی ایام میں سلطان سلیمان ،اپنے بدترین دشمن صفوی شیعوں کے عظیم ترین شہروں بغداد اورتبریز میں فاتحانہ داخل ہواتھا مگر وہاں اس نے کوئی لوٹ مارہونے دی نہ قتل وغارت۔تیونس کے سقوط کے چھٹے دن خیرالدین پاشا،الجزائر پہنچ چکاتھا،اس کے اکثر ساتھی شہید ہوگئے تھے۔
1537ء میں پوپ پال سوئم نے پورے یورپ کوعثمانیوں کے خلاف اتحاد کی دعوت دی ڈالی تھی۔چنانچہ صلیبیوں کا ایک عظیم مشترکہ بحری بیڑہ تیارہواجس میں 308جنگی اور292 باربرداری کے جہاز تھے۔ بحری سپاہیوں کی تعداد ساٹھ ہزارتھی۔ لشکر کی قیادت یورپی بحری کمانڈر اینڈریا ڈوریا کے ہاتھ میں تھی۔خیر الدین پاشا نے روڈس اورکریٹ کے درمیان واقع ’کربہ‘ کے جزیرے فتح کرلیے تھے۔اسی دوران اطلاع ملی کہ یورپی ممالک کا مشترکہ بحری لشکر اسے گھیرنے کے لیے آرہاہے۔ خیرالدین پاشا نے اپنے امراء سے مشورہ کیا۔انہوںنے رائے دی کہ پریویزا کے ساحل تک پیچھے ہٹتے چلے جانا مناسب ہوگا۔وہاںٹہرکر دشمن کا انتظار کرناچاہیے تاکہ جب دشمن وہاں پہنچے تو قلعے پر نصب توپوں سے بھی اس پرحملہ کیا جاسکے اوربرّ ی فوج بھی ہماری مدد کرسکے۔
خیرا لدین نے کہا:’’بحری جنگ ہمیشہ کھلے سمندرہی میں موزوں ہوتی ہے نہ کہ ساحل پر۔اگرہم ساحل کے قریب ہوںگے تو ہمارے لیے جہازوں کوآزادی سے چکر دینااوراپنی مرضی کے مطابق کہیں لے جانا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
خیرالدین پاشا122 بحری جہازوں اور22ہزارسپاہیوں کے ساتھ ،اس عظیم قوت کے مقابلے پرنکلااورساحل سے نو کلومیٹر آگے پہنچ گیا۔جب دشمن کے بحری جہاز دکھائی دیے توپاشا ،اپنے جہازوں کے بادبان کھول کر انہیں دوسری طرف لے گیا،حریف کو تعاقب میں تھکانے کے بعد اس نے یونان کے مغربی ساحل پر خلیج ’امورا کیکوس ‘کے قریب ’’پریویزا‘‘ کی حدودمیں رُک کرحریف کاانتظار کیا۔25ستمبر 1538ء کی صبح دونوں بحری بیڑے اتنے قریب آگئے کہ دوربین کے بغیر ایک دوسرے کودکھائی دے رہے تھے۔ آخر دوطرفہ توپیں گرجنے لگیں اور دونوں بحری فوجوں میں گھمسان کی لڑائی ہونے لگی۔پاشا اپنے ہلکے پھلکے جہازوں کو تیزی سے چکر دے کر دشمن کی گولہ باری سے بچتا رہا۔یورپیوں کے جہا زبڑے بھاری بھرکم تھے، جوابی گولہ باری سے بچنے کے لیے وہ اتنی تیز حرکت سے قاصر رہے۔