Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

23 - 102
دسمبر سے دسمبر تک
31دسمبر 1600ء کو ملکۂ برطانیہ کی اجازت سے ’’ایسٹ انڈیاٹریڈنگ کمپنی ‘‘کی داغ بیل پڑی ۔ تاجروں کے بھیس میں آنے والے انگریز تاجر ڈیڑھ صدی بعد ہندوستان میں جوکچھ کررہے تھے ،اس کا حال ایک ہندومؤرخ یوں بتاتاہے:
’’ہندوستان سے جتنامال ولایت روانہ کیاجاتا ،اس کے معاوضے میں ایک پائی بھی لوٹ کرنہ آتی… کمپنی کی پالیسی یہ تھی کہ ہندوستان کی صنعت کوبرباد کردیاجائے،بنگال میںریشم کے کپڑے کو تیار ہونے سے روکنے کے کھلے احکام صادرکیے گئے۔ریشم بافوںکوجبراًکمپنی کے کارخانوںمیںملازم لگایا گیا اورکسی دوسرے کے لیے کپڑابننے کی ممانعت کردی گئی۔اسی طرح جنوبی دکن کی چھینٹ ا ورسوتی کپڑوںکی صنعت برباد کردی گئی ۔‘‘(بحوالہ انگریز کے باغی مسلمان ص60)
انگریزوں زیادتیوں کوبرصغیر کے باشندوںنے ایک صدی تک برداشت کیامگر پھرمئی ۱۸۵۷ء  میں وہ اس غاصب طاقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔تاہم مقد رمیں جوتھا وہ ہوکررہا۔ مجاہدینِ آزادی میں سب سے آخر تک لڑنے والا شہزادہ فیروز شاہ تھا۔یہ عالمگیر ثانی کی اولاد سے تھا۔جنگ ِ آزادی کے وقت اس کی عمرکوئی بیس پچیس سال تھی۔وہ حج کے لیے گیاہواتھا اورعین لڑائی کے دوران سورت کی بندرگا ہ پر واپس اتراتھا۔انگریز اسے گرفتارکرکے قتل کرنے کی تیاری کرچکے تھے مگر وہ انہیں جُل دے کرنکل گیا۔جولائی ۱۸۵۷ء میں اس نے مغربی مالوہ کے اضلاع میں لوگوں کومنظم کرکے انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑدی اوریہ ساراعلاقہ آزاد کرالیا۔ مندیسور ،گوالیار اورمتعدد علاقے اس کے قبضے میں آگئے ۔اس کے بعد وہ دہلی کے محصور بادشاہ کی مددکے لیے پہنچناچاہتاتھامگرا س سے پہلے ہی دہلی پر انگریزوں کاقبضہ ہوگیااورفیروزشاہ نے لکھنؤپہنچ کر حضرت محل ، بخت خان اوراحمداللہ شاہ کے ساتھ متحدہ محاذ بنالیا۔ لکھنؤ کے سقوط کے وقت وہ بالکل آخر میں شہر سے نکلا۔اس نے شاہ جہاں پورکی جنگ احمداللہ شاہ کے ساتھ مل کرپوری جانبازی سے لڑی ۔مرادآباد کے ایک معرکے میں وہ گرفتارہوتے ہوتے بچا۔شہزادہ فیروز شاہ بڑاعابد وزاہد اوراصول پسند انسان تھا۔انگریز ڈاکٹر سین اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتاہے کہ اس جیسی شٰخصیت وعزیمت کاآدمی اگر ایک صدی پہلے پیداہوتاتو اپنے لیے ایک سلطنت پیداکرلیتا۔ایک صدی بعد ہوتاتو عوام کاہردل عزیز لیڈر بن جاتا۔مگر ا س دلیر شہزادے کوایسازمانہ ملا جس میںاس کی سرگرمیاں بے نتیجہ رہیں ۔
احمداللہ شاہ کے قتل کے بعد وہ بریلی کے نواب خان بہادر کے شانہ بشانہ آکھڑاہوا اور چھاپہ مارطریقِ جنگ اپناکرکئی ماہ تک انگریزوں سے برسرِ پیکار رہا۔مگردسمبر ۱۸۵۹ء  میں مزاحمت کی یہ آخر ی چنگاری بھی بجھ گئی۔ شہزادہ شکست کھاکر سندھ کی طرف نکل گیااور ایران وعراق سے ہوتاہواترکی پہنچ گیا۔آخر میں اس نے حجازِ مقدس کی فضا میں سکون پایااور حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے حلقے میں شامل ہوگیا۔
حاجی امداداللہ صاحب خوداپنے خلفاء سمیت اس جنگِ آزادی میں شامل تھے۔ شکست کے بعد وہ انگریزی کے جاسوسوں سے بچتے بچاتے پنجاب پہنچ گئے ۔ارادہ ہجرت کرکے مکہ معظمہ جانے کا تھا۔ وہ انبالہ کے قصبہ پنج سالہ میں جاکر اپنے ایک مخلص راؤعبداللہ خان کے ہاں ٹہرے۔اگرچہ ان کی آمد نہایت خفیہ تھی اورراؤصاحب نے مزید احتیاط کے طورپر انہیں گھوڑوں کے اصطبل سے متصل ایک خالی کوٹھری میں ٹہرایا تھا۔ اس کے باوجود انگریز کے جاسوسوں نے یہ راز جان لیااورانگریزوں تک اطلاع پہنچادی ۔یہ بھی بتادیاکہ حاجی صاحب گھوڑوں کے اصطبل سے متصل کوٹھری میںملیں گے۔ اطلاع ملتے ہی انگریز کلکٹر اورمجسٹریٹ راؤصاحب کی حویلی کے درواز ے پر آدھمکے۔یہ اشراق کا وقت تھااورحاجی صاحب کوٹھری میں اشراق کے نوافل اداکررہے تھے۔کلکٹر کی آمد پر راؤصاحب گھبرائے مگرخود پر قابورکھااور گرم جوشی سے استقبال کر کے آمد کی وجہ پوچھی ۔
مجسٹریٹ نے کہاـ:’’سنا ہے آپ کے اصطبل میں عمدہ گھوڑے ہیں ۔صاحب انہیں دیکھنے آئے ہیں۔‘‘
راؤ صاحب انہیں اصطبل میں لے جاکر گھوڑے دکھانے لگے۔کلکٹر معاینہ کرتے ہوئے آخر اس کوٹھری تک پہنچ گیا اور اسے کھلوانے کاکہا۔راؤصاحب نے یہ کہتے ہوئے اس کادروازہ کھلوادیاکہ یہاں گھوڑوں کے لیے گھاس بھری رہتی ہے۔کلکٹر نے اندرجھانک کردیکھاتو ایک چوکی پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا ۔ساتھ لوٹارکھاتھااورزمین بھی گیلی تھی۔ صاف ظاہر تھاکہ کوئی ابھی ابھی وضو کرکے نماز سے فارغ ہواہے۔مگر نماز پڑھنے والاکوئی دکھائی نہ دیا۔کلکٹر نے پوچھا:یہ چوکی کیسی ہے؟راؤصاحب بولے: میں یہا ں نماز پڑھاکرتاہوں۔کلکٹر کہنے لگا:یہاں نماز کاکیامطلب؟نماز کے لیے تومسجد ہوتی ہے۔راؤصاحب بولے:ہمارے مذہب کی تعلیم ہے کہ فرض نماز مسجد میں اداکریں مگر نفل کسی پوشیدہ جگہ پڑھیں ۔‘‘کلکٹر نے کوٹھری کاکونہ کونہ چھان مارامگر کچھ ہاتھ نہ لگا۔اسے یقین ہوگیاکہ مخبر کی خبر غلط ہے ،وہ معذر ت کرکے یہ کہتے ہوئے واپس ہوگیاکہ کوئی گھوڑاہماری مرضی کانہیں ملا۔
راؤصاحب یہ سوچتے ہوئے دوبارہ اسی کوٹھری میں پہنچے کہ آخر حاجی صاحب کہاں چلے گئے۔ جا کر دیکھا توحاجی صاحب اسی مصلّے پر موجودہیں۔راؤصاحب نے حیران ہوکر پوچھا:’’حضرت آپ ابھی تلاشی کے وقت کہاں تھے؟فرمایا:’’میں تویہیں تھا۔‘‘وہ بولے:انگریز نے آپ کوکیوںنہ دیکھا؟ فرمایا:وہ اندھاہوجائے تومیں کیاکروں؟…… حضرت حاجی صاحب سندھ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے ۔دسمبر ۱۸۵۹ء میں تحریکِ آزادی کے یہ درویش قائد بھی کراچی سے بذریعہ بحری جہاز مکہ معظمہ روانہ ہو گئے اوروہیں۱۸۹۹ء میں وہیں وفات پائی۔
ان کے نائب حضرت مولاناقاسم نانوتوی  بھی انگریزسرکار کومطلوب تھے۔ ایک دن وہ  چھتہ کی مسجد میں تشریف فرماتھے کہ پولیس پہنچ گئی ۔حضرت بڑے اطمینان کے ساتھ اٹھے اور جوتیاں سنبھال کر مسجدسے نکلنے لگے۔ پولیس افسرنے پوچھا :مولانامحمد قاسم کہاں ہیں؟‘‘حضرت ایک دو قدم آگے بڑھے اورپیچھے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:ابھی تویہاں تھے۔پولیس افسر تیزی سے مسجد کے اندرچلا گیا،اورمولاناوہاں سے دورنکل گئے۔دوسال تک آپ مختلف بستیوں،قصبوں کے درمیان آتے جاتے رہے۔پولیس کبھی آپ کونہ پکڑ سکی۔دسمبر ۱۸۶۰ء میں حضرت نانوتوی بھی پنجاب اور سندھ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے اور وہیںسے بحری جہاز میں بیٹھ کر حج کے لیے روانہ ہو گئے۔ روپوشی کی حالت میں قرآنِ مجید حفظ کیااورسمندری سفر میں پہلی بارتراویح میں ختم قرآن اس شان سے کیا کہ عازمینِ حج کی صفیں پیچھے بندھی ہوتیں ،آپ آگے کھڑے کلام اللہ شریف سناتے اورجہاز سمندر کی لہروں کو چیرتا جارہا ہوتا۔
اور۲۰۰۱ء میںیہی دسمبر کامہینہ اوراسلامی مہینہ رمضان کاتھا جب سقوطِ قندہار ہوا۔فاقہ مست جانباز رات کی تاریکی میں پہاڑوں کی طرف نکل گئے اورامریکی غاصب سپاہی اپنے حامیوں سمیت مزاحمت کے آخری حصار پر بھی قابض ہوگئے۔ 
سال پر سال ختم ہورہے ہیں مگرجنگ ابھی جاری ہے ۔اہلِ جنوں نے بھی ہمت نہیں ہاری ہے۔
سال ہجری ہو یاشمسی،اس کااختتام شورشرابے ،آتش بازی اورخودفراموشی کانہیں،انفرای اوراجتماعی طورپر خود احتسابی کادرس دیتاہے۔ آئیے اپنے اعمال کاجائزہ لیں۔اپنی تقصیرات سے توبہ کریں۔ اور اللہ رب العزت کے حضور دعا کریں کہ وہ اُمت ِ مسلمہ کے لیے اگلا سال خیروبرکت کاسال بنائے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter