صحبتِ یا رآخر شد(۲)
دل کی تکلیف کافی عرصے سے تھی ،مگر اس سال جولائی میں جو دورہ پڑاتھا ،اس کے باعث طبیعت بہت دنوں تک نڈھال رہی ۔میں فون پرحال احوال پوچھتارہا۔ آہستہ آہستہ ا ن کی طبیعت بہتر ہوگئی۔
کوئی دوہفتے پہلے وہ بتارہے تھے کہ اب کافی بہتر ہوں ،کام معمول کے مطابق جاری ہیں۔جب میں نے کہا کہ اب کاموں کوہلکا کرلیں۔ توکہنے لگے :
’’ہاں بس ایک بچوں کااسلام اورایک ماہانہ ناول کاسلسلہ ذمے لیاہواہے۔اس کے علاوہ کوئی کہانی وغیرہ نونہال یاکسی رسالے کے لیے کبھی کبھارلکھ دیتاہوں۔‘‘
پھر کہنے لگے:’’بس بیماری نہ بھی ہوتو بڑھاپاتوہے ہی۔اس کااثر تو محسوس ہوتاہی ہے۔‘‘
ان سے آخری بات چیت اتوارکے دن ہوئی تھی ۔ پہلے ان کی کال آئی ،میں وصول نہ کرسکا،پھر میں نے کال کی ،یہ کوئی اڑھائی تین بجے کاوقت تھا،میں مدرسے سے گھر کی طرف آرہاتھا۔اسلام گڑھ کا موڑمڑنے سے پہلے اشتیاق صاحب کوکال کی توانہوں نے فوراً فون اٹھالیا ۔ میں نے کہا :
’’حضرت !آپ کی کال آئی تھی ! میں وصول نہ کرسکا۔‘‘
بولیـ:’’آپ کہاں ہیں۔‘‘
میں نے کہا:’’بس کھیتوں کے درمیان سے گزررہاہوں۔‘‘
’’اچھا،یعنی اپنے شہرمیں ہیں!‘‘
’’ نہیں گاؤں میں۔‘‘
’’ہاں ہاں وہی گاؤں میں۔مطلب یہ کہ کراچی میں نہیں ہیں۔میں کراچی آیاہواہوں ،سوچاکیا پتا آپ بھی آئے ہوئے ہوں توملاقات ہوجائے۔‘‘
’’بس اللہ نے چاہاتو ملاقات ہوگی ۔‘‘
میں نے کچھ دنوں پہلے اشتیا ق صاحب سے ایک پریشانی کا ذکر کیا تھا۔ اشتیاق صاحب نے اس کے بعداس کاحال احوال پوچھا جب میں نے بتایاکہ الحمد للہ اب خیروعافیت ہے ،تو انہوںنے اظہارِ اطمینان کیا۔
پھر میں نے پوچھا:’’کراچی میں کہاں ٹہرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’وہی ،قاری عبدالرحمن صاحب کے ہاں۔ اپنا تووہی پکا ٹھکانہ ہے۔‘‘
’’ہاں بلاشبہ ،آپ کااوران کا توچولی دامن کاساتھ ہے۔ ‘‘
’’ہاں ہاں ،اس میں کیا شک ہے۔‘‘ ان کی آواز میں ہنسی کی جھلک نمایاں تھی۔
سلام دعا کے ساتھ کال اختتام کو پہنچی۔
17نومبر کو جب قاری عبدالرحمن صاحب ہی سے ان کی وفات کی خبر سنی تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔اشتیاق صاحب بیمار بھی تھے اورعمرکی آٹھویں دھائی میں داخل ہوچکے تھے ،اورساری زندگی نہایت متحرک رہ کرگزاری ،تصانیف اورتحریری کام کا ایک عظیم ذخیرہ چھوڑکر گئے ،ان کے ساتھ رہنے اورکام کرنے کابھی خوب موقع ملا۔اس کے باوجود ،ایسالگ رہاہے کہ وہ بہت جلدی چلے گئے۔
حیف کہ درچشم زدن صحبت ِ یار آخر شد
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے بعض بزرگ علماء بھی،اشتیاق صاحب کے ناولوں کو پسندکرتے رہے ہیں۔ بعض خشک طبع لوگوں کوچاہے یہ معیوب لگے ،مگر ان حضرات نے سچی بات کہہ ڈالی ۔ ان میں سے ایک حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تھے جنہوںنے اشتیاق صاحب کاشہرہ آفاق ناول’’ وادی مرجان‘‘ پڑھاتو بے ساختہ تعریفی کلمات لکھ ڈالے ۔یہ کلمات ِ بابرکات ،اشتیاق صاحب کے کئی ناولوں کے آخر میں شایع کیے گئے۔
ایک بار بلوچستان کے عظیم عالم دین ، حضرت اقدس مفتی رشیدا حمدصاحب کے خلیفہ مجاز،حضرت مولانا مفتی احتشام الحق آسیاآبادی ،کراچی تشریف لائے ۔روزنامہ اسلام کے دفترمیں قیام ہوا۔ اس دوران اشتیاق احمد صاحب کی خدمات پر بات چل نکلی توفرمانے لگے:ان کا کوئی ناول ہے تو دے دیں ،میں بھی پڑھ کر دیکھوں۔ میں نے ایک ناول لادیا۔
اگلے دن ملاقات ہوئی تو حضرت نے فرمایا:’’ ناول شروع کیا، تو ہاتھ سے رکھانہ گیا۔ جیسے جیسے آگے جاتاتھا،مزا بڑھتاہی جاتاتھا۔ یہ مصنف کاکمال ہے،ورنہ اتنی طویل تحریر میں بوریت ضرور ہوجاتی ۔‘‘
غرض جب علماء بھی ان کے مداح تھے تو ادبی دنیا کے رسیالوگوں کی ان سے وابستگی کس حدتک ہوگی ، اس کااندازہ لگایا جاسکتاہے۔
وہ انسان تھے اوربہت ہی صاف دل اورکھرے ،کسی حدتک ان کی طبیعت معصوم بچوں جیسی تھی ۔اس کاوہ خودبھی اعتراف کرتے تھے اورکہتے تھے ،بچوں کے لیے لکھتے لکھتے میں خود بھی بچہ بن گیا ہوں۔ ایک بار کہنے لگے:کسی نے پوچھاکہ بچوں کے لیے لکھنا بہت مشکل ہوتاہے،آپ یہ مشکل کام کیسے کرلیتے ہیں ۔تو میں نے جواب دیاکہ بچوں کے لیے لکھنا ،اس لیے مشکل ہے کہ اس کے لیے بڑوں کو اپنا ذہن بچوں کی سطح پر لانا پڑتاہے جو ان سے ہونہیں پاتا،اس لیے بڑوں کوبچوں کے لیے لکھنامشکل لگتاہے۔‘‘
اشتیاق صاحب بڑے صاف دل اورصاف گو تھے۔اس لیے چاہتے تھے کہ دوسرے بھی ان سے معاملہ صاف رکھیں ۔ اصول کے پکے تھے اس لیے کسی کا طے شدہ معاملے کے خلاف چلنا کرنا انہیں سخت ناگوارگزرتاتھا۔ ان کی ویسے کسی سے ناراضی نہیں تھی مگر جب دیکھتے کہ کوئی خلافِ اصول معاملہ کررہاہے تو پھرانہیں بہت اذیت ہوتی ۔مگر اس کے باوجود اگر کوئی مناتا تو جلد من جاتے تھے۔ معافی تلافی کرتا تو،فوراً معاف کردیتے تھے۔
دینی حوالے سے وہ بے حد حساس تھے۔ تاریخ پر بھی ان کی اچھی نظر تھی مگر ان کی جس چیز پر رشک آتا تھا، وہ اسلامی عقائد اورباطل فرقوں کے بارے میں ان کا مطالعہ تھا۔ وہ اچھے بھلے مناظر تھے ۔ قادیانیت، شیعییت ، مودودیت، بریلویت ،مسئلہ حیات وممات ،ناصبیت ویزیدیت …ان سب موضوعات پر علماء کی کتب ان کے مطالعے میں رہتی تھیں۔صرف یک طرفہ نہیں بلکہ دونوں طرف کے دلائل دیکھتے تھے۔ہر مسئلے پر فریقین کی کتب سے ان کا کتب خانہ بھراہواتھا۔ یہ الگ بات کہ کتب مانگ کر لے جانے والوں کی کثرت تھی اورآخر میں ان کے کتب خانے کا خاصا حصہ ایسے حضرات کی عنایات کی نذر ہوچکاتھا۔
اگر چہ ردِ فتن ان کاموضوع نہیں تھا مگرانہیں اس موضوع سے خا ص دلچسپی تھی جس کی اصل وجہ خوداپنے عقیدے کو درست رکھنے کی فکر تھی ۔ابتداء میں وہ ایک عام سے مسلمان تھے ۔ دیوبندی تھے نہ بریلوی۔ پھر ایک بار انہیں دیوبندی اوربریلوی متنازعہ مسائل میں کسی مسئلے کی تحقیق کی ضرورت پیش آگئی ۔ انہوں نے علماء کی کتب دیکھنا شروع کیں۔ تقابل کیااورآخر میں یہ حقیقت جان گئے کہ علمائے دیوبند برحق ہیں۔
جب انہوںنے اپناتصوراتی’’ ناول وادی مرجان‘‘ لکھا توقادیانی ان کے پیچھے پڑگئے۔ا س پر انہوںنے قادیانیت کامطالعہ شروع کیااوربہت جلد ان کی تردید کے ماہر ہوگئے۔پھر مجلسِ تحفظ ختم نبوت کے ممبر بن گئے۔ انہوںنے مرزاگامے کی حقیقت کھولنے کے لیے ’’تھالی کابینگن ‘‘ جیسی مزے دارکتاب لکھی جسے پڑھ کر بچے ہنستے کھیلتے، قادیانی فتنے سے خبردارہوجاتے ہیں۔
جھنگ سے جب سپاہ صحابہ کی تحریک اٹھی تواشتیاق صاحب ایک سنی مسلمان ہونے کے ناطے صحابہ کی عظمت کے تحفظ کے لیے بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے فعال ہوگئے۔انہوںنے شیعہ فتنے کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا اورپھر اسی موضوع پربعض ناول لکھے جن میں اژدھا سیریز سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
انہوں نے کبھی حیات وممات یاناصبیت جیسے مسائل کو موضوعِ بحث نہیں بنایا مگرجہاں ان مباحث میں جمہور اہلِ سنت کے موقف ضروری ہوجاتا ، وہاں وہ آج کل کے رائج جدید نظریات کی جگہ ،اہلِ سنت کا وہی عقیدہ ونظریہ پیش کرتے جو چودہ صدیوں سے چلا آرہاہے۔ ظاہر ہے اس حدتک بیان کرنا،ہرگز فرقہ ورایت کے ضمن میں نہیں آتا ۔ ہاں اس سے انحراف کرکے ایک نئی رائے پر اصرار، اکابر کی تغلیط اور اس کے باوجود اہلِ سنت اورعلمائے دیوبند سے نسبت کاپرچار،ضرور ایک غیر منصفانہ اورفتنہ انگیز طرزِ عمل ہے۔
غرض تمام اصولی ونظریاتی مسائل میں وہ اہلِ سنت والجماعت کے مختار مذہب اور علمائے دیوبند کی تحقیقات سے اچھی طرح واقف تھے ۔اس لیے اگر کوئی انہیں ان معاملات میں چھیڑتاتو نہایت مسکت جواب دیتے۔وہ ایسے حضرات کو پسند نہیں کرتے تھے جو اہلِ سنت سے وابستگی ظاہر کرنے کے باوجود ،ان مسائل میں اکابر کو غلطی پر بتاتے ہوں۔