Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

102 - 102
محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲)
اس پورے مسئلے کو سب سے زیادہ واضح انداز میں ابن حبان نے لکھا ہے ۔فرماتے ہیں:
’’محمد بن اسحق پر دوافراد نے جرح کی ہے۔ ہشام بن عروہ اورمالک بن انس ۔ہشام بن عروہ  سے جب یحییٰ بن سعید نے پوچھاکہ کیا محمدبن اسحق نے فاطمہ بنت منذر سے روایت لی ہے تو ہشام بن عروہ نے فرمایا:کیا وہ ان سے مل چکاہے؟……(ابن حبان کہتے ہیں)ہشام بن عروہ کی اس بات سے کسی کو روایتِ حدیث میں مجروح نہیں سمجھاجاسکتاکیونکہ عراقی تابعین مثلاً اسود،علقمہ،ابوسلمہ اورعطاء ،نیز ان کے علاوہ حجاز ی تابعین نے عائشہ رضی اللہ عنہاکو دیکھے بغیرروایات سنی ہیں،بس ان کی آواز سنی تھی مگر لوگوںنے ان کی روایات کوقبول کیا ہے،حالانکہ ان میں سے کوئی بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روبرونہیں ملا۔پس اسی طرح ابن اسحق نے فاطمہ بنت منذرسے پسِ پردہ روایت سنی ہے،وہ ان کی آواز سن سکتے تھے۔سماع کی یہ شکل درست ہے۔اوراس کی بنا ء پر کسی پرجرح کرناانصاف کے خلاف ہے۔
رہی امام مالک کی بات توانہوںنے فقط ایک بارایساکہاتھا۔اس کے بعد وہ محمد بن اسحق سے اسی برتاؤ پر لوٹ آئے تھے جوانہیں پسند تھا۔اصل میں ہوایہ تھاکہ حجاز میں محمدبن اسحق سے بڑھ کرعربوں کے نسب اورتاریخ کا ماہر کوئی نہ تھا۔محمدبن اسحق کاکہناتھاکہ امام مالک بنوذی اصبح کے موالی میں سے ہیں جبکہ امام مالک کادعویٰ تھاکہ وہ بنوذی اصبح ہی میں سے ہیں۔اس وجہ سے دونوں میں بحث ہوگئی۔ پس جب امام مالک نے مؤطا تصنیف کی تومحمد بن اسحق نے فرمایاکہ یہ مجھے دکھاؤ،میں اس کا طبیب ہوں۔ یہ بات امام مالک تک پہنچی توفرمایا:وہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے جویہودیوں کی روایات لیتاہے۔اس کے بعد دونوں کے مابین وہ کچھ ہواجولوگوں کے مابین ہوتاہے۔آخر محمد بن اسحق نے عراق جانے کاعزم کرلیا۔تب دونوں میں صلح ہوگئی۔امام مالک نے انہیں رخصت کرتے ہوئے اپنی اس سال کی  پیداوار کانصف حصہ یعنی پچاس دینارہدیہ کیے ۔
امام مالک نے حدیث کی روایت میںان پرجرح نہیں کی تھی بلکہ اس وجہ سے کی تھی کہ محمدبن اسحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تفصیلات جاننے کے لیے (دورِ رسالت کے )یہودیوں کی نومسلم اولاد کے پاس بھی چلے جاتے تھے جنہیں خیبر،قریظہ اوربنی نضیر اوران جیسی دوسری جنگوں کے حالات یادتھے۔ابن اسحق ان چیزوں کوتلاش کرتے تھے تاکہ انہیں جان لیں۔اس لیے نہیں کہ ان سے (شرعی)استدلال کریں۔جبکہ امام مالک صرف ثقہ ،صدوق ،عالم فاضل آدمی سے روایت لیتے تھے جواچھی طرح روایت بیان کرتاہواوراس روایت( کے معانی )کو جانتاہو۔‘‘
یہ تھاابن حبان کابیان جس کی روشنی میں محمد بن اسحق پربعض ائمہ کی جرح کاسیاق وسباق اچھی طرح سامنے آجاتاہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جرح بڑے بڑے ثقہ راویوں پر بھی ہوئی ہے۔ بخاری ومسلم کے بھی بیسیوں راوی ایسے ہیں جن پر کسی نہ کسی نے جرح کی ہے۔مگرہرکسی پرہر جرح من وعن قابلِ قبول  نہیںہوتی ۔بعض اماموںکی زبانی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پربھی جرح کی گئی ہے۔ انہیںمرجئی، خارجی، عقل پرست اور بے دین تک کہاگیاہے۔ مگر اُمت نے اس جرح کویکسرمسترد کردیااوران آراء کومعتبر سمجھاجن کے مطابق وہ امام الائمہ ہیں۔یہ وہ حقیقت ہے جس پر پوری اُمت کے علماء متفق ہیںاوراسی لیے فقہ حنفی عالم اسلام میں سب سے زیادہ معروف ومقبول ہے۔
محمدبن اسحق کے بارے میں بھی مثبت اورمنفی دونوں آراء ہیں۔ صدیوں پہلے جمہورمحدثین ان آراء میں توازن رکھتے ہوئے یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ محمدبن اسحق کی روایات سیرت،غزوات اور تاریخی واقعات میں معتبر ہیں جبکہ احکام میں اس درجے معتبرنہیں۔عمومی طورپرانہیں قابلِ قبول راوی ماناگیاہے جس کااس سے بڑھ کراورکیا ثبوت ہوسکتاہے کہ صحیح مسلم میں ۷ ،نسائی میں۱۴،ترمذی میں ۴۱،ابن ماجہ میں۷۰ اورابوداؤدمیں ۱۸۰ روایات انہی محمدبن اسحق کی ہیں۔ فقہاء نے بھی محمدبن اسحق کی روایات کونقل کیاہے۔امام شافعی کی مسند میں۴ روایات ہیں۔جبکہ امام احمدبن حنبل کی مسند میں ۵۹۰ ۔ احناف کے عظیم فقیہ ومحدث امام طحاوی نے شرحِ معانی الآثارمیں ۷۸ اورشرح مشکل الآثار میں ۷۷روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر فقہ سے متعلق ہیں۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ان سے فقط تعلیقاً روایت لی ہے مگر اپنی التاریخ الاوسط میں ان کی چار اورالتاریخ الکبیر میں ۱۰۴ روایات نقل کی ہیں جن میں ایک بڑی تعداد مرفو ع احادیث کی ہے۔ ابن حبان (م۳۵۴ھ)نے صحیح ابن حبان میں محمد بن اسحق کی۷۵ روایات لی ہیں۔ابن حبان کی’’ السیرۃ النبویہ‘‘ کااچھاخاصا حصہ محمدبن اسحق کی روایات پر مشتمل ہے۔ امام دارقطنی(م۳۸۵ھ)نے جرح وتعدیل پر کام کے دوران محمدبن اسحق پر ٹھیک ٹھاک جرح کی ہے ،مگراس کے باوجود اپنی سنن میں محمد بن اسحق کی ۴۹روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر شرعی احکام سے متعلق ہیں۔
روایات چاہے ذخیرۂ حدیث کی ہوں یاذخیرۂ تاریخ کی ،مؤطا،بخاری ومسلم جیسے ایک محدود ذخیرے کو کومستثنیٰ کرکے کسی بھی روایت کے سلسلۂ اسناد پر آج بھی بحث ہوسکتی ہے۔بالکل قریبی دورمیں یہ کام ہوابھی ہے۔مثلاًشیخ البانی نے ہزاروں احادیث کی اسناد کوچھان کران میں صحیح،حسن یاضعیف کی نشان دہی کی ہے۔اسی طرح طبری پر بھی کام ہواہے اوراس میں صحیح ،حسن اورضعیف کو الگ الگ کیاگیاہے۔(اس فن کے ماہرین کسی روایت کے متعلق کسی محقق کی رائے سے اختلاف بھی کرسکتے ہیں۔)مگر کسی محقق نے یہ حماقت کی ہے ،نہ کرسکتاہے کہ اگر حدیث ،سیرت یاتاریخ کے کسی مجموعے میں کچھ روایات ضعیف ثابت ہوگئی ہوں،یاان کے متون میں کچھ باتیں قابلِ اشکال ہوں اورذہن میں خلش پیداکرتی ہوں تو مؤلف ہی کو خائن، فریبی ،اسلام دشمن اورکفارکاایجنٹ قراردے دیاجائے۔ قابلِ اشکال روایات اورذہن میں خلجان پیداکرنے والی چیزیں توبخاری ومسلم سمیت تقریباًہر مجموعۂ حدیث میں ہیںجنہیں لے کرمستشرقین نے مکتب’’الاستشراق فی الحدیث‘‘ آبادکیا ہے۔ مگر مکھی بیٹھ جانے پر ناک کونہیں کاٹ دیاجاتا۔ایسے اشکالات کے جوابات دیے جاتے ہیں اوردیے گئے ہیںجو شروحِ حدیث میں بھی موجودہیں اوراستشراق کے دفاع میں لکھی گئی کتب میں بھی۔بہرکیف فنِ نقد میں اس کی گنجائش کسی نے نہیں سمجھی کہ مؤلفین اورتالیفات کو اسلام سے خارج کردیاجائے۔ایسی عوامی آراء عوام ہی کی ہوسکتی ہیں،علماء کی نہیں۔
جرح وتعدیل کی چند آراء کواستعمال کرکے سیرتِ نبویہ کی عظیم الشان خدمات کوسبوتاژ کرنا،اسلام کا دفاع ہرگزنہیں۔اگر ہوتاتوہم سے کہیں زیادہ چوکناعلماء گزشتہ صدیوں میں تھے۔ انہیں یہ بھی پتاتھاکہ ابن ہشام کی سیرت جن روایات پر مشتمل ہے ،ان کاسلسلۂ سند کہاں جاکرملتاہے۔ مگرعلمائے اسلام نے بارہ صدیوں میں سیرت ابن اسحق کودریابرد کیانہ ابن ہشام کی سیرت کوآگ میں جھونکا۔بلکہ ان کی برابر خدمت کی۔ان سے استفاد ہ کیا،حواشی لگائے۔
یورپی استعمار نے عالم اسلام کے کتاب خانوں کی لوٹ مارکرکے جن اعلیٰ کتابوں کواسلامی دنیاسے ناپید کیا،ان میں محمدبن اسحق کی سیرت سرفہرست ہے۔ جب استعمارکاسورج ڈھلاتوعلمائے اسلام اس کی تلا ش میں سرگرداں ہوئے۔ برصغیر کے عظیم محققق جناب ڈاکٹر حمیداللہ پیر س والے نے برسوں تلاش کے بعداسے ڈھونڈ نکالا اور اس نسخے کی تحقیق کرکے ازسرِ نوطبع کرایا،اس پرکارنامے پرسارے عالم اسلام کے علماء نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے علمی منہج کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھا جائے اوراگر اس کی توفیق نہ ہوتوکم ازکم ’’جدیدتحقیق‘‘ کے نام پرکی جانے والی کسی ایسی کوشش کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جو عنوان کے لحاظ سے جذبات کواپیل کرنے والی مگر حقیقت میں مسلمانوں کی علمی میراث کوڈبونے کے مترادف ہو۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter