Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

24 - 102
تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱)
نویں صدی ہجری…پندرہویں صدی عیسوی…اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ صدیوں  پرمشتمل عظیم بادشاہی اب سمٹ کر صرف غرناطہ اور اس کے گردونواح تک محدودرہ گئی تھی۔ جزیرہ نما اندلسمیں قسطالیہ کی متعصب نصرانی سلطنت سوالاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی جبکہ مملکتِ غرناطہ کارقبہ سمٹ کر اس وقت کوئی چارہزارمربع میل رہ گیاتھا۔ تاہم غرناطہ کاحکمران سلطان ابوالحسن علی ان مایوس کن حالات میں بھی آزادی کے ولولے سے تہی دست نہیں ہواتھا۔
۸۸۰ھ میں جب قسطالیہ کے حکمران فرڈی ننڈ نے اسے پیغام بھیجا کہ اگر تم صلح کے خواہاں ہو تو ہمیں خراج دینا منظور کرلوتو سلطان ابوالحسن علی نے جواب میں یہ تاریخی جملہ کہلوایا:’’خراج اداکرنے والے حکمران مرچکے ہیں۔غرناطہ کی ٹکسال میں اب سکّے نہیں ،تلواریں تیار کی جاتی ہیں ۔‘‘
ذی الحجہ۸۸۲ھ میں سلطان ابوالحسن علی نے غرناطہ کے باہر ایک کھلی وادی میں عسکری نمائش منعقد کی تاکہ اپنے اورپرائے سب غرناطہ کی فوجی طاقت دیکھ کر مرعوب رہیں۔یہ نمائش پورے ماہ جاری رہی۔ مگرنمائش کے آخری دن خوفناک گھن گرج کے ساتھ سیاہ بادل امنڈ آئے اورایسی موسلادھاربار ش شروع ہوئی کہ آن کی آن میںپوری وادی زیر آب آگئی ۔دکانوں،مکانوں،مسجدوں اورقہوہ خانوں میں گھس گیا ۔جامع مسجد تک محفوظ نہ رہی۔ درجنوں عالی شان عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اورکئی پُل تباہ ہوگئے۔اہلِ نظر اس سیلاب کواللہ کی طرف سے کسی ناگہانی خطر ے کی تنبیہہ شمار کرنے لگے۔
کچھ دن گزرے تھے کہعلماء وصلحاء اور مجاہدین نے سلطان ابوالحسن کوہمت دلائی اوراس نے جہاد کا اعلان کرکے ۸۸۶ھ میںعیسائیوں کامستحکم سرحدی قلعہ الصخرہ فتح کرلیا۔
پھر اس نے مزیدپیش قدمی کی اور ۲۷جمادی الاولیٰ ۸۸۷ھ کو لوشہ کے میدان میں نصرانیوں کو ایسی عبرت ناک شکست دی کہ وہ ہزاروں لاشیں اور تمام ساز و سامان چھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
اس فتح کی خوشخبری جونہی غرناطہ پہنچی وہاں مسرت کاسماں ہوگیامگر۲۵سالہ شہزادے ابو عبداللہ محمد کا مزاج بگڑگیاجسے حاشیہ برداروںنے باپ کا سخت مخالف بنا رکھا تھا۔اس نے باپ سے بغاوت کردی اوراپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔
لوشہ کے فاتحین کویہ اطلاع ملی توان پربجلی گر پڑی اورفتح کی خوشی خاک میں مل گئی ۔سلطان ابوالحسن علی نے صدمے سے بوجھل ہوکر مالقہ کارُخ کیااوروہاں اپنے بھائی الزغل کے ہاں پناہ لی ۔اب چھوٹی سی مملکتِ غرناطہ دوحصوں میں تقسیم ہوچکی تھی ۔غرناطہ ،وادی ٔ آش ،المریہ اورجنوب مشرقی شہروں کا بادشاہ ابوعبداللہ تھا جبکہ مالقہ ،بلش اورجنوب مغرب کے کچھ قلعوںپر سلطان ابوالحسن علی کی حکومت تھی ۔
فرڈی ننڈکو اصل خطرہ ابوالحسن علی سے تھا،لہٰذااسے ٹھکانے لگانے کے لیے صفر۸۸۸ھ میں قسطالیہ کی افواج دو سمتوں سے مالقہ کی طرف بڑھنے لگیں۔یہاں بھی مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی اورنصرانی  قدم پر قدم پر لاشیں چھوڑتے ہوئے واپس بھاگے۔ یہ گیارہ صفر ۸۸۸ھ کا واقعہ ہے۔
غرناطہ کاسلطان بننے کے بعدابوعبداللہ نے اپنے باپ اورچچا کے خلاف صف آراء ہونے میں دیر نہیں لگائی اور جلدہی اس نے فوج لے کر مالقہ کی طرف کوچ کیا۔الزغل بھی مجاہدین اورسپاہیوں کولے کرمیدان میں نکل آیا۔ ابوعبداللہ کو شکست ِ فاش ہوئی اوروہ غرناطہ کی طرف بھاگ نکلا۔ واپس آکراسے احساس ہواکہ وہ عوامی مقبولیت سے محروم ہے اوراسے اپناسیاسی قد بلند کرنے کے لیے اپنے باپ اور چچاکی طرح دوچارمیدانوں میں نصرانیوں کوشکست ضروردینی چاہیے۔چنانچہ اس نے غرناطہ کی فوج اور رضاکاروں کے ساتھ ربیع الاول ۸۸۸ھ میں شمال مغرب کی سمت قسطالیہ کے شہر قرطبہ کی طرف یلغار کی ۔راستے میں اس نے کئی قلعے فتح کیے اورکئی جھڑپوں میں نصرانیوں کوشکست دی۔
ان فتوحات کے بعد وہ مالِ غنیمت سے لداپھنداواپس آرہاتھا کہ ’لسانہ‘ کے قلعے کے قریب نصرانیوں کی ایک فوج نے اچانک حملہ کرکے اسے گرفتار کرلیا۔اسے سخت پہرے میں فرڈی ننڈ کے پاس قرطبہ بھیج دیاگیاجس نے ملاقات میں شہزاد ے کی کم عقلی کا اندازہ لگالیا۔وہ سمجھ گیا کہ غرناطہ پر قبضہ تب ہی ہوسکتاہے جب ایسا نادان نوجوان وہاں تخت نشین ہو۔اس نے شہزادے پر مہربانیوں اور نوازشوںکی بارش کرکے اسے یقین دلادیاکہ دنیامیںاس کے سچے دوست صر ف فر ڈی ننڈ اور ازابیلا ہیں۔ 
شہزا دے کی گرفتاری سے غرناطہ کاایوانِ اقتدار لرزنے لگاتھا۔مسلمانانِ اندلس آٹھ صدیوں میں کبھی ایسی ذلت سے دوچارنہیں ہوئے تھے۔شاہی خاندان کے امراء اورغرناطہ کے عمائد حیران تھے کہ اب کیاکیاجائے۔ایسے میں شہزادے کی ماں ملکہ عائشہ نے نہایت صبروتحمل کام لیتے ہوئے سب کی ہمت برقراررکھی جس کی بناء پر آخرکارسب نے متفق ہوکردوبارہ ابوالحسن علی کو سلطان مان لیااوران کے وفدنے مالقہ حاضر ہوکرسلطان سے دوبارہ تاج وتخت سنبھالنے کی درخواست کی ۔ابوالحسن پر فالج کاحملہ ہوچکاتھا،نگاہ جواب دے گئی تھی تاہم وہ امراء کے ساتھ غرناطہ چلاگیا اورحکومت سنبھال لی۔اس نے پوری کوشش کی کہ منہ مانگی دولت دے کراپنے بیٹے ابوعبداللہ کو فرڈی ننڈ کی قید سے چھڑالے ۔اس کوشش کے پیچھے شفقتِ پدری سے زیادہ یہ خیال کارفرماتھاکہ شہزادہ فرڈی ننڈ کے پاس رہ کر دشمن کاآلہ کاربن جائے گاجبکہ غرناطہ واپس لاکر اسے قابومیں رکھاجاسکتاہے۔ابوالحسن نے فرڈی ننڈ کوشہزادے کے بدلے اپنے ہاں قیدکئی نصرانی جرنیلوں کی رہائی کایقین بھی دلایامگر فرڈی ننڈ نہ مانا۔
ابوالحسن علی سخت بیماری اورطبیعت کے ملال کے باعث کچھ مدت بعدتخت سے دستبردارہوگیااور اپنے بھائی محمد الزغل کو نیاسلطان مقررکرکے کچھ دنوں بعد وفات پاگیا۔یہ ۸۹۰ ھ کاواقعہ ہے۔
سلطان ابوالحسن علی کی موت کی خبرسنتے ہی فرڈی ننڈ نے غرناطہ کے خلاف نئی مہمات کاآغاز کردیااور ربیع الآخر ۸۹۰ھ میں مغرب کی سمت میں غرناطہ کی تقریباً تمام دفاعی چوکیاں ایک ایک کرکے چھن لیں۔تاہم الزغل نے جوابی کارروائی کرکے انہیں پسپاکردیا۔ 
اس دوران ملکہ عائشہ نے فرڈی ننڈ کی طرف سفیر بھیج کرایک بارپھر شہزاہ ابوعبداللہ کی رہائی کی کوشش کی ۔ فرڈی ننڈ نے رہائی کی سخت قیمت لگائی اور مطالبہ کیاکہ شہزادہ رہائی کے بعدغرناطہ کاتخت سنبھال کرفرڈی ننڈ اورازابیلا کامطیع رہے گا۔ ملکہ نے مجبوراً یہ مطالبہ تسلیم کرلیا ۔ 
دراصل امیر محمد الزغل کے ہاتھوں دوتین میدانوں میں شکست کے بعد فرڈی ننڈ سمجھ گیاتھاکہ جب تک مسلمانوں کوباہم لڑایا نہیں جائے گا،غرناطہ پرقبضہ مشکل ہے۔چنانچہ اس نے یہ معاہدہ کرکے چچااوربھتیجے کے درمیان خانہ جنگی کی آگ بھڑکادی ۔اس نے شہزادے کو آزاد کردیا، مگر قسطالیہ کی فوج کاایک دستہ اس کے ساتھ رہا۔ شہزادے کو سب سے پہلے تختِ غرناطہ حاصل کرناتھا تاکہ وہ معاہد ے کی باقی شقوں پر عمل کے قابل ہوسکے۔چنانچہ اس نے اپنے چچاکے خلاف بغاوت کردی۔
الزغل نے اس سے رابطہ کیا اور اسے بمشکل سمجھایاکہ اس وقت اختلافات کا نتیجہ ، اندلس سے مسلمانوں کے خاتمے کے سواکچھ نہیں نکلے گا۔آخر ابوعبداللہ مان گیا ۔طے پایاکہ تختِ غرناطہ الزغل کے پاس رہے گا اور شہزادہ ابوعبداللہ کواس کے پسندیدہ شہر کی گورنری دی جائے گی ۔اختلاف ختم ہوتے ہی مسلمان نصرانیوں سے جہاد کے لیے متحد ہونے لگے ۔
یہ اتحاد فرڈی ننڈ کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے متراد ف تھا۔شہزادہ ابوعبداللہ محمدلوشہ میں تھاکہ فرڈی ننڈ نے ایک بڑالشکر بھیج کر اس شہر کاسختی سے محاصرہ کرلیا۔ مسلمانوں نے جان لڑاکرمزاحمت کی مگر ان کی تعداد بہت کم تھی ،غرناطہ سے بھی کوئی کمک نہ آئی اورآخر شہر فتح ہوگیا۔فرڈی ننڈ شہزادہ ابوعبداللہ محمد کودوبارہ گرفتارکرکے ساتھ لے گیا۔یہ واقعہ ۲۶جمادی الاولیٰ۸۹۱ھ کاہے۔ اس کے بعدنصرانی بڑی تیزی سے غرناطہ کے نواحی قلعوں پر قابض ہوگئے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter