نعمتوں کی ناقدری
میںنے رکشہ کورکنے کااشارہ کیا۔ سفیدر یش پٹھا ن ڈرائیو رسے چارسو روپے میں معاملہ طے ہوگیا۔ میری منزل جامعۃ الرشید تھی۔وہاں شعبہ کلیۃ الدعوۃ کے انچارج مولانا فیاض احمد صاحب نے ہر سال کی طرح اس بار بھی راقم کے تاریخی لیکچر ز کااہتمام کیاتھا۔اتوارکادن تھا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ سڑکوں پرٹریفک بہت کم تھی۔ رکشہ تھوڑی ہی دیر میں سہراب گوٹھ کے قریب جاپہنچا۔تب مجھے خیال آیاکہ جیب میں رقم ناکافی ہے۔ میںنے رکشے والے کوبینک اسلامی کے قریب رکنے کااشارہ کیا۔ اے ٹی ایم سے رقم حاصل کی۔ واپس رکشے کی طرف پلٹا تودیکھا،رکشہ ڈرائیورزمین سے کچھ چن رہاہے ۔میں نے دیکھا،وہ روٹی کے ٹکڑے تھے۔ ڈرائیور نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی چن لیے ۔ انہیں بڑی عقیدت سے چومااورانہیں رکھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنے لگا۔ بینک کے زینے پر کچھ گملے رکھے تھے۔میں نے ادھر اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے وہ ٹکڑے گملے میں ڈال دیے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر رکشہ اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے کہا:
’’مولانا صاب!ہم غریب لوگ سارادن اس روٹی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ادھر امیرلوگ اسی روٹی کو زمین پر پھینکتے ہیں۔ اللہ کی نعمت پیروں کے نیچے آتی ہے۔ یہ توبڑاظلم ہے۔‘‘
میں سوچتارہ گیا۔غریب لوگ کتنے حقائق شناس ہیں ۔زندگی کی حقیقت کو واقعی یہی لوگ سمجھتے ہیں ، عیش وعشرت کے پروردہ کیاجانیں زندگی کیاچیز ہے۔
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر وتیشہ وسنگِ گراں ہے زندگی
دودن بعد راقم ایک شادی کی دعوت کی شریک تھا۔بہت بڑاہال بک کیاگیاتھا۔میز پرہر نعمت چن دی گئی تھی۔کئی قسم کی روٹیاں ،نان ،پراٹھے،قورمہ ،نہاری ، پلاؤ،رائتہ ،فرنی، آئس کریم ،کولڈڈرنک اور بہت کچھ۔ ابھی ہم کھانے سے فارغ ہوکر آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ خدمت پر تعینات دوستوںنے ہر چیز تیزی سے سمیٹنی شر وع کی۔ میز پر موجود سب کچھ اٹھاکربڑے بڑے شاپروں میں ٹھونسا جارہاتھا۔ حتی کہ وہ ڈشیں جنہیں چکھابھی نہیں گیاتھااوروہ روٹیاں جن میں سے ایک نوالہ بھی نہیں توڑاگیاتھا،جوں کی توں اٹھاکر انہی شاپروں میں ڈالی جارہی تھیں۔یقینا ان کی منزل کوڑے کا ڈرم تھا۔
روزانہ صرف اس ایک شہر کراچی میں شادی کی ہزاروں ضیافتیں ہوتی ہیں۔ہر ضیافت میں اسی طرح کھانے کاضیاع ہوتاہے۔ مجموعی طورپر دیکھاجائے تواس ملک میں جہاں لاکھوں لو گ بھوکے سوتے ہیں اورہر سال خودکشی کے بیسیوں واقعات محض تنگ دستی کی وجہ سے پیش آتے ہیں،وہاں رزق کااس قدر بے دردی سے ضیاع کتنا بڑاالمیہ ہے۔ اسلام میں اسرف کی سخت مذمت کی گئی ہے۔اسلام اللہ کی نعمتوں کی قدراورشکر کی تعلیم دیتاہے۔کا ش کہ ہم اسلام کی سنہرے اصولوں کوقرارواقعی اہمیت دیتے ،تواس زوال وادبارسے دوچارنہ ہوتے جس میںہم انفرادی واجتماعی طورپر مبتلاہیں۔
ایک دوست کچھ عرصہ پہلیمغربی دنیا سے ہوکر آئے ۔انہوںنے بتایاکہ وہ جس ریاست میں ٹہرے تھے ، وہاں رزق کو ضیاع سیبچانے کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ایک پاکستانی وہاں کے کسی ہوٹل میں گیااور کھانا منگوایا۔اس کے سیر ہوجانے پر بھی کچھ کھانا پلیٹ میں بچ گیا۔ ہوٹل میں کسی نے یہ منظر دیکھ کر پولیس کوفون کردیا۔ پولیس نے آ کراس شخص پر جرمانہ عائد کردیا کہ اس نے پلیٹ میں کھانا باقی کیوں چھوڑا۔جب اس نے کہا کہ وہ کھانے کی قیمت اداکررہاہے،اب اس کی مرضی وہ کھائے یانہ کھائے ۔توپولیس نے اسے بتایاکہ یہاں کاقانون ہے کہ آپ اپنی پلیٹ میں اتناہی نکالیں گے جسے آپ کھا سکیں۔ اگر بچائیں گے تو قانو ن کی خلاف ورزی کے ارتکاب میں جرمانہ عائد ہوگا۔ غرض وہ صاحب کئی پونڈا داکرکے اپنی جان بچاسکے۔ اس کے بعدا نہوںنے اس واقعے کو تحریر کرکے اس کی کاپیاں چھاپ کر پاکستانیوں کو بھیجیں تاکہ باقی لوگ بھی ہوشیار ہوجائیں۔
یہ اہلِ مغرب کے لیے محض ایک عام واقعہ ہے مگر ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہ کتنی ندامت کی بات ہے کہ جس چیز کی تعلیم اسلام نے چودہ سوسال پہلے دی تھی ،ہم اپنے معاشرے میں کھلے عام اس کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔جبکہ اہلِ یورپ کو جو وحی کی روشنی سے بالکل محروم ہیں،جب اس سچائی کااحساس ہواکہ رزق کو ضایع کرنا درحقیقت،بھوکوں پر ظلم کے مترادف ہے ،توانہوںنے اس برائی کوروکنے کے لیے ایک قانون نافذ کردیا ۔
رزق کو ضایع ہونے سے بچانا،اسلام کاحکم ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ کھانے کے بعد انگلیوں کوبھی چاٹ لیاجائے۔ یہ بھی سنت ہے کہ برتن کو چاٹ کر صاف کردیاجائے،تاکہ رزق کاکوئی ذرہ ضایع نہ ہونے پائے۔ ہمارے شیخ حضر ت مولانایحییٰ مدنی رحمۃ اللہ علیہ ان چیزوں کی بڑی تاکیدفرماتے تھے۔ان کایہ حال تھاکہ کھانے کے بعد اپنے سامنے دسترخوان پر گرے ہوئے ایسے چھوٹے ذرات جو چٹکی سے بھی نہ پکڑے جاسکیں، انگلی پر لگا کر چاٹ لیاکرتے تھے۔ہمیں باربار تاکید کرتے کہ دسترخوان پر کوئی ذرہ باقی نہیں رہناچاہیے۔ مدرسے میں جو سالن بچ جاتا اورطلبہ کی ضرورت سے بھی زائد ہوتا،وہ غریبوں کے گھر بھیج دیاکرتے تھے۔یہ نوبت ہرگز نہ آنے دیتے کہ رزق پڑے پڑے خراب ہوجائے۔ ان اخلاق وآداب کواپنانے کی ضرورت ہے۔
ہم کم ازکم اتنا توکرہی سکتے ہیں کہ شادی یاکسی بھی عنوان کی ضیافتوں پربے پناہ اخراجات کے ساتھ عظیم الشان انتظامات کرتے ہوئے ’’حفاظت ِ رزق‘‘ کانظم بھی بنالیاکریں۔کچھ افراد کوصرف اس کا م کا ذمہ دارمقررکیاجائے کہ وہ ضیافت سے بچنے والے کھانے کوضایع نہ ہونے دیں بلکہ اسے مستحقین تک پہنچانے کااہتمام کریں ۔بعض فلاحی ورفاہی ادارے بھی اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ا ن سے رابطہ کرکے اس عمل کوآسان کیاجاسکتاہے۔ اگر صرف شادی کی دعوتوں سے بچ جانے والی خوراک ضایع ہونے سے بچالی جائے تو میراخیال ہے ،لاکھوں مفلوک الحال افراد کو روزانہ اچھاکھانا پہنچایاجاسکتاہے۔