محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین
محمد بن اسحق ، مدینہ منورہ کے علماء میں سے تھے۔ان کے والد اسحق بن یسار تابعی اور احادیث کے ثقہ راوی تھے ۔محمد بن اسحق ایک مدت تک مدینہ میں رہے ۔ پھرعراق چلے گئے۔ وہاں جانے کے بعد ان کا علمی حلقہ زیادہ پھیلا۔ وہ پہلے سیرت نگارہیں جنہوںنے صحابہ اورتابعین سے مروی سیرت کی روایات کوجمع کیااورایک عمدہ ترتیب کے ساتھ پیش کیا۔ بعد کی تمام کتبِ سیرت کی بنیادیہی کتاب ہے۔روایات جمع کرنے میں انہوںنے ایک کھلامعیاررکھا،تاکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہر چھوٹی بڑی بات محفوظ ہوجائے۔اس لیے راویوں کے ثقہ ہونے کی شرط نہیں رکھی۔ ہر روایت کولیتے گئے۔ان کا خیال تھا کہ اس سارے ماحول کوبھی محفوظ کرلیاجائے جس میں بعثت نبویہ ہوئی تھی ۔اس لیے زمانہ جاہلیت کے حالات،عرب کے قدیم حکمرانوں کی سیاست ،قبائل کے جھگڑے،مشرکین کی فضول رسمیں،شاعروں کی قصیدہ گوئی اوررزمیہ نظمیں سبھی کچھ انہوںنے سمیٹ لیا۔ غرض اس میں ایسامواد بھی آگیا جس کابعثتِ نبویہ کے ماقبل ومابعد دور سے توتعلق تھامگر براہِ راست اس کاحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے کوئی تعلق نہ تھا۔یوں ا ن کی کتاب بہت ضخیم ہوگئی تھی اور ہیرے موتیوں کے ساتھ پتھرکنکر بھی جمع ہوگئے تھے۔
اس لیے تقریباً نصف صدی بعد ایک دوسرے عالم ابن ہشام نے اس میں سے ایسی اکثر چیزیں نکال دیں جوسیرت کوسمجھنے میں اہم نہ تھیں۔یہ دوسری کتاب سیرت ابن ہشا م کے نام سے مدون ہوکراصل کتاب سے کہیں زیادہ مقبول ہوگئی یہاں تک کہ اکثر لوگ ابن ہشام ہی کو اوّلین سیرت نگار سمجھنے لگے۔
معاصر لوگوں میںنوک جھوک ،کش مکش اورایک دوسرے پرچوٹ ایک معمول کی بات ہے ۔اہلِ علم بھی فرشتے نہیں،انسان ہوتے ہیں۔ قدیم دورکے جلیل القدرائمہ بھی معاصرانہ شکررنجیوں سے بالکل محفوظ نہ تھے۔ محمد بن اسحق عمر میں امام مالک سے لگ بھگ دس سال بڑے تھے۔(امام مالک کی ولادت ۳ ۹ ہجری کی ہے اور محمدبن اسحق کی ۸۰کے کچھ بعد کی )مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ کی مقبولیت کاسورج نصف النہارپرتھا۔مگر محمدبن اسحق بھی کچھ کم نہ تھے۔دونوں نے اپنے اپنے طور پر ایک معیاررکھ کرروایا ت جمع کی تھیں۔منہج کے اختلاف کی وجہ سے بڑی بڑی علمی شخصیات میں اختلاف پیداہوہی جاتاہے ۔ ایک بارایک شخص نے( جس کانام آج بھی مجہول ہے، اورروایات میں اس کا ذکر ’’رجل‘‘ کہہ کرآیاہے)آکر امام مالک کوکہا :
’’ محمد بن اسحق کہتے ہیں کہ مالک کی حدیثیں مجھے دکھانا۔اس علم کو پرکھنے والا میںہوں۔‘‘
امام مالک اپنے علم پر حرف گیری برداشت نہ کرسکے اورفرمایا:
’’وہ تودجالوں میں سے ایک دجال ہے جوکہتاہے کہ مالک کاعلم مجھے دکھانا۔‘‘
امام مالک کے یہ جملے محفوظ ہوکرعلم جرح وتعدیل کاحصہ بن گئے۔امام مالک کی جرح کے جوالفاظ جرح وتعدیل کی کتب میں منقول ہیں ،وہ یہی ہیں۔راقم کوتلاش کے باوجوداس بات کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملا کہ امام مالک نے سیرت ابن اسحق دیکھ کرفرمایاہوکہ اس میں قصے کہانیاں ہیں ۔
محمدبن اسحق پر جودوسری سخت ترین جرح ہے ،وہ مشہورتابعی ہشام بن عروہ نے کی تھی۔ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت منذر،جو ہشام بن عروہ سے تیرہ برس بڑی تھیں،اپنی دادی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہااورام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے احادیث روایت کیاکرتی تھیں۔
محمدبن اسحق نے بھی ان سے روایت لی اورآگے نقل کی ۔ہشام بن عروہ کوپتاچلاکہ محمد بن اسحق ان کی اہلیہ سے روایات نقل کررہے ہیں توحیران ہوکر فرمایا:محمد بن اسحق جھوٹا ہے۔وہ بھلامیری اہلیہ سے کب ملا؟‘‘ ہشام بن عروہ کی یہ جرح بھی محفوظ ہوگئی۔
ہم یہ دعویٰ ہرگزنہیں کرتے کہ جرح وتعدیل کے ہر امام نے محمدبن اسحق کو ثقہ سمجھاہے۔ امام مالک اورہشام بن عروہ کی مذکورہ جرحوں کے علاوہ بعض نے ان پر تشیع کا الزام بھی لگایاہے ، بعض نے قدری ہونے کاطعن بھی کیا ہے۔الزامات لگانے والے صفِ اول کے محدثین اورنقادتھے۔
مگر ان الزامات کومسترد کرنے والے بھی اسی دورمیں گزرے ہیںجوجلالتِ شان میں کچھ کم نہیں تھے۔ جرح وتعدیل کے بہت بڑے امام حافظ الحدیث امام علی بن مدینی نے محمدبن اسحق کادفاع کیا اورفرمایاـ:’’میرے نزدیک ان کی روایت صحیح ہے۔‘‘
اس پر ایک عالم یعقوب بن شیبہ نے پوچھا:اورجوامام مالک نے ان کے بارے میں کہاہے ؟
علی بن مدینی بولیـ:’’امام مالک ان کے حلقے میں نہیں بیٹھے ،وہ انہیں نہیں جانتے ۔‘‘
ابن نمیر فرماتے تھے:ان پر قدری ہونے کاالزام لگایاگیاجبکہ وہ سب لوگوں سے زیادہ اس سے دور تھے۔ {تہذیب التہذیب:۹ص۴۲}
امام بخاری نے بھی امام مالک کی جرح کو من وعن قبول نہیں کیا بلکہ امام مالک کے ان جملوں کوثابت ماننے میں شک کرتے ہوئے فرمایا :’’اگر امام مالک سے ابن اسحق پر الزام لگاناصحیح ثابت ہوجائے، تو بعض اوقات انسا ن کوئی بات کہتا ہے اورکسی شخص کوکسی معاملے میں الزام دیتاہے مگر اس کایہ مطلب نہیں ہوتاکہ وہ اسے ہر معاملے میں اس پر الزام لگارہاہے۔‘‘{سیراعلام النبلاء}
حافظ ذہبی سیراعلام النبلاء میں امام بخاری کایہ قول نقل کرکے فرماتے ہیں:’’ یہ بات جانی بوجھی ہے کہ بہت سے معاصر علماء کی آپس میں ایک دوسرے پر تنقید بے حیثیت ہے۔ا س کاکوئی اعتبار نہیں خصوصاً جب آدمی کوایسی جماعت نے ثقہ قراردیاہوجوانصاف پسند ہے۔‘‘
پھر جس طرح ایک فریق ان کی جرح میں سختی کررہاتھا،ایک دوسرافریق ان کی تعدیل میں بہت آگے تھا اوراس میں بھی چوٹی کے محدثین شامل تھے۔ان میں سے ایک امام شعبہ تھے جو انہیں ’’امیر المحدثین ‘‘ کہتے تھے۔{الجرح والتعدیل:۱ص۱۵۲}
جمہور ائمہ نے اس بارے میں اعتدال کاراستہ اختیارکیا۔ علمائے جرح وتعدیل نے جو اصول مقرر کیے ہیں،ان کے تحت ا ن کی اکثریت نے محمدبن اسحق پر سخت جرح کو قبول کیاہے،نہ انہیں اعلیٰ درجے کاثقہ ماناہے۔ انہیں ’’امیرالمحدثین ‘‘ قراردیاہے کہ نہ کذاب اوردجال۔ان کی ہرروایت کو مستردکیاہے نہ ہر روایت کوآنکھیں بند کرکے حجت سمجھاہے۔اس کی بجائے انہوںنے محمداسحق کو درمیانے درجے کاسچاراوی اورسیرت وتاریخ کے لحاظ سے قابلِ اعتماد ماناہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے محمدبن اسحق کے بارے میں پوچھاگیاکہ وہ کیسے تھے ، توجواب ملا: ’’حسن الحدیث۔یعنی روایت بیان کرنے میں اچھے تھے۔‘‘