Deobandi Books

حضرت مولانا اسماعیل ریحان صاحب ۔ کالم ۔ 2016

20 - 102
اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس
۲۹مارچ بروزمنگل اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت ’’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کی تعریف ، قوتِ نافذہ اوراس کے بنیادی عناصر‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔ادار ے کی مجلس ِ منتظمہ کی جانب سے کانفرنس کی ضرورت کوواضح کرتے ہوئے بتایاگیاکہ جہاد اسلامی احکام میں سے ایک اہم حکم ہے،عقیدے، شعائردینیہ،اسلامی ریاست کی سرحدات کے تحفظ ودفاع اوراندرونی خلفشار کے خاتمے کے لیے جہا دکرنا،دینی ،شرعی ،ملی وقومی فریضہ ہے۔بعض حالات میں جہاد فرضِ کفایہ اوربعض حالات میں فرض عین ہوجاتاہے۔جہاد کی تفصیلی احکام قرآن مجید ،احادیث ِ نبویہ ،فقہ اسلامی اورملکی قوانین میں موجود ہیں ۔مگر جدید دور میں اس کی عملی تطبیق کے بارے میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔ اس حوالے سے چند مغالطے اورعملی مشکلا ت بھی ہیں۔یہ کانفرنس ایسی غلط فہمیوں کے ازالے اورعملی راستے میں حائل رکاوٹوں کاجائزہ لینے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ 
راقم کو سکیرٹری کونسل ڈاکٹر اکرام الحق صاحب کی طرف سے کراچی میں اس کادعوت نامہ موصول ہواجس میںشرکت اورخطاب کی دعوت دی گئی تھی ۔ نائب سکیرٹری ڈاکٹر غلام دستگیر شاہین صاحب  فون پر رابطے میں رہ کرسفری انتظامات کوآسان بناتے رہے۔یوںراقم پیر ۲۸مارچ کی شام کراچی سے بذریعہ فلائٹ اسلام آباد پہنچ گیا۔
صبح پونے دس بجے اسلامی نظریاتی کونسل کی مرکزی عمارت کے دروازے پر تھا۔ عمارت قدیم وجدیداسلامی طرزِ تعمیر کاعمدہ نمونہ ہے۔ احاطے میں واقع سبز گنبد والی مسجد اس کی شان دوبالا کررہی تھی۔ڈاکٹر شاہین صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ استقبال کیا اور سکیرٹری کونسل ڈاکٹر حافظ اکرام الحق صاحب سے ملوایا۔ وہاں دیگر شہروں سے تشریف لائے ہوئے دیگر علما ء بھی موجودتھے۔ٹھیک دس بجے کانفرنس ہا ل میں پروگرام شروع ہوگیا۔تلاوت کے بعد چیرمین اسلامی نظریاتی کونسل جناب مولانامحمد خان شیرانی نے خطبہ استقبالیہ دیا جس میںاسلام اورمسلمانوں کے خلاف عالمی سازشوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ماضی وحال کے ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے،جہاد کی صحیح توضیح وتشریح کی ضرورت کااحساس دلایا۔
کراچی کے جناب مفتی محمد حسین شاہ گردیزی نے فقہ حنفی کی عبارات کے حوالے سے جہاد کی تعریف ، غرض وغایت اورآداب پر مبنی اپنا مقالہ پیش کیا۔
دارالعلوم نرشک مردان سے تشریف لائے ہوئے مولاناسجادالحجابی نے ’’دورانِ جنگ انسانی حقوق کے متعلق شرعی احکام اوربین الاقوامی قوانین کاجائزہ ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیاجو اس اجلاس کے بہترین مقالوں میں سے ایک تھا۔انہوںنے دورانِ جنگ انسانی حقوق کے متعلق کتبِ حدیث وفقہ کی متعدد عبارات پیش کیں اورمسئلے کواچھی طرح واضح کرنے کے بعد کہا کہ مسلمان سپہ سالار اُس زمانے میں بھی انسانی حقوق کاپوراخیال رکھتے تھے جب مغرب کوان باتوں کی ہوابھی نہیں لگی تھی۔ بارہ سوسال تک شریعت اسلامیہ دورانِ جنگ حقوق انسانی کی پاسداری کی واحد علم بردارتھی جبکہ غیرمسلم اقوام کااس بارے میں کوئی معروف قانو ن نہیں تھا۔
راقم کوبھی گفتگو کی دعوت دی گئی۔ راقم کی معروضاتجہاد میں اسلامی ریاست کاکردار اور ریاست سے ماوراء جہادکے حوالے سے تھیں۔
پہلی نشست سوا ایک بجے اختتام پذیر ہوئی ۔اس کے بعد مہمانوں کی پرتکلف ضیافت کااہتمام تھا۔ نماز ظہر کے بعدسوا دوسے ساڑھے چاربجے تک دوسری نشست ہوئی ۔اس میں پنجاب یونی ورسٹی کے ڈاکٹر عبداللہ نے مختلف مذاہب میں جنگ کے تصورپر بڑی پرمغز گفتگو کی اوراسلامی جہا د کی جامعیت اوراعتدال کو واضح کیا۔
اس نشست میںنامور عالم دین اوردانش ور حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کاخطاب بھی ہوا۔ حضرت نے واضح فرمایاکہ جہاد کی تعریف اورآداب واحکام کتب فقہ میں تفصیل سے موجود ہیں ،اس لیے  ان سے ہٹ کریا انہیں نظرانداز کرکے کسی نئی موشگافی کی قطعاً ضرورت نہیں۔ہاں ضرورت اس با ت کی ہے کہ ان احکام کی عصر حاضر کے حالات پر تطبیق کی جائے۔انہوںنے جہاد کے موجودہ میدانِ جنگ کا جائزہ لینے کی طرف بھی توجہ دلائی اورکہاکہ پہلے میدانِ جنگ مغرب میں تھامگر اب مغربی طاقتوںنے جنگ کامیدان عالم اسلام میں منتقل کردیاہے ۔ بہت سے سامعین کی طرح ہماری بھی آرزوتھی کہ حضرت اس موضوع پر مفصل کلام کریں ۔مگرانہوںنے بڑے نپے تلے الفاظ میں مختصرسی گفتگوپراکتفاکیا۔
آخری مہمان حضرت مولانا محمد زاہد صاحب ( شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ فیصل آباد)تھے۔انہوںنے فرمایاکہ آج کے دورمیں جہاد کاذکرکرتے ہوئے ہماراذہن صرف میدانِ جنگ کی طرف جاتاہے حالانکہ محدثین اورفقہاء کی اصطلاح میں کتاب الجہادیا کتاب السیرکودیکھیں تو معلوم ہوگاکہ اس میں صرف میدانِ جنگ کے احکام نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین(انٹرنیشنل لاء) کو بیان کیاگیاہے۔ جس کتاب الجہاد میں جنگ کے احکام ہیں ،اسی میں صلح کے احکام بھی ہیں اس لیے علمی دنیا میں جہا دکالفظ ایک خاص مفہوم رکھتاہے ۔حضرت مولانازاہد صاحب کابیان بھی مختصر مگرنہایت پرمغز اور مؤثر تھا۔ اختصار ملحوظ رکھنے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اجلاس کاطے شدہ وقت ختم ہواچاہتاتھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین حضرت مولانامحمد خان شیرانی  نے اختتامی کلمات میں یہ افسوس ناک انکشاف کیا کہ اقلیتی رہنما ،اقلیتوں کے لیے شراب کی اجازت کاقانون منسو خ کرانا چاہتے ہیں اوربرملاکہتے ہیں کہ ان کے مذاہب میں شراب حرام ہے ۔مگر ہمارے سیاست دان اس اجازت کوباقی رکھناچاہتے ہیں۔
حضرت مولانامحمد خان شیرا نی کی عا پر یہ پروقارتقریب اختتام پذیر ہوئی۔  
اجلاس میں بعض حضرات کی گفتگواس لحاظ سے تو قابلِ ستائش تھی کہ انہوںنے ایک حکومتی فورم پر لگی لپٹی کی پرواکیے بغیر ،اپنے موقف کو پورے زوروشور سے بیان کیا۔ مگر ایسے بعض حضرات کی گفتگو میں خطیبانہ گھن گرج زیادہ تھی،جس سیعام سامعین شاید محظوظ ہوئے ہوں مگر اس اندازِ گفتگو کا نقصان یہ ہواکہ علمی پہلو سے ان حضرات کاموقف پوری طرح واضح نہیں ہوسکا۔کچھ مقررین طے شدہ وقت کا لحاظ بھی نہ رکھ سکے ،جس کی وجہ سے بعد والے علمائے کرام کو اپنے بیانات مختصر کرنا پڑے اورکئی بہترین مقالے پوری طرح حاضرین کے سامنے نہ آسکے۔
بہرکیف اپنے مقصد،غرض وغایت اورحسنِ انتظام کے لحاظ سے یہ پروگرام قابلِ تحسین تھا۔اعلیٰ انتظامیہ سے ماتحت اسٹاف تک سب نے مہمانوں کی خدمت میں کوئی کسرنہ چھوڑی ۔یہ دیکھ کر بہت مسرت ہوئی کہ اس سرکاری ادارے کاماحول اورعملے کارویہ عام سرکاری محکموں سے یکسر مختلف تھا۔ فضاء میں اسلامی اخلاق واقدار کی خوشبورچی بسی تھی۔ ہرطرف حسنِ اخلاق اورشائستگی نمایاں تھی۔
غالباً اسی نرمی سے فائدہ اٹھا کر بعض اٹھائی گیرے بھی مجلس میں شریک ہوگئے تھے۔کوٹ پینٹ میں ملبوس خشخشی ڈاڑھی والے ایک ادھیڑ صاحب جو خود کو صحافی ظاہر کر رہے تھے،کھانے کے دوران راقم کو باتوں میں الجھا نے اور کچھ رقم لے کررفوچکر ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اجلاس کا سیکورٹی سسٹم کمزور تھا اورمشکوک لوگوں کے اندرگھسنے کی گنجائش تھی۔یہ بات اس لیے ذکر کردی تاکہ دیگر حضرات بھی آئندہ کے لیے ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔نیز حکومتی ادارے اپنی سیکورٹی بہتر بنائیں تاکہ صحافی دکھائی دینے والے اورحقیقی صحافیوں میں فرق ہوسکے۔
راقم نے اس کانفرنس میں لکھے ہوئے مقالے کی بجائے ،چند اشارات کوسامنے رکھ کراپنی گزارشات پیش کیں جن کاحاصل یہ تھا: 
’’ اسلام میں جہاد کا تصور اور تعریف کیا ہے؟اس کے وجوب کی شرائط کیا کیا ہیں؟ جہاد کے لیے امیر یاسربراہِ مملکت کی اجازت اورسرپرستی ضروری ہے یا نہیں ؟ ریاست کے بغیر جہاد کی حیثیت کیا ہے؟اس وقت عالم اسلام میں جو جہادی تنظیمیں کام کررہی ہیں ،ا ن کی شرعی حیثیت کیا ہے؟یہ تمام ابحاث بڑی اہم اورنازک ہیں۔ ان کاتعلق فقہِ اسلامی سے ہے اورفقہاء ہی ان معاملات کی کماحقہ توضیح کرنے کے مجاز ہیں۔اس مجلس میں الحمد للہ ایسے حضرات موجودہیں اورہم فقہی زاویۂ نگاہ سے ان کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ میں اس بحث کے ایک خاص رخ پر کچھ معروضا ت پیش کرناچاہتاہوں۔وہ ہے تاریخی تجربات وشواہد کی روشنی میں اس امر کاجائز ہ لینا کہ آیا ریاست کے بغیر کبھی جہا د ہواہے ۔اوراگر ہواہے تو اس میں آج تک کامیابی کاتناسب کیا رہاہے۔
سیرتِ نبویہ کودیکھیے تویہ بات صاف دکھائی دے گی کہ جہاد کرکے اسلامی ریاست نہیں بنائی گئی بلکہ ریاست بناکر جہاد کیاگیاہے۔مکہ میں ایسے جانثار یقین اموجودتھے جو دشمنوں کے خلاف کارروائیاں کرسکتے تھے مگر اس تمام مدت میں اللہ کی طرف سے ہاتھ روکنے کاحکم تھا۔ مدینہ کی اسلامی ریاست ،دعوت ،ذہنی آبیاری ،رکنیت سازی ،تنظیم ، گروہ بندی ،بیعت اورحمایت کے ذریعے قائم ہوئی۔اس کے بعد بدر سے غزوہ تبوک تک جہاد کاہر غزوہ یاسریہ اسی ریاست کے تحت انجام پایاہے۔
میری نگاہ میں پوری سیرتِ نبویہ میں ریاست کے بغیر جہادیا دشمنانِ اسلام کے خلاف کارروائیوں کی صرف ایک مثال ملتی ہے،وہ ہے صلح حدیبیہ کے ایام میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ اوران کے کچھ ساتھیوں کی چھاپہ مارکارروائیاں جن سے کفارِ مکہ ہراساں ہوئے اورصلح کی ایک شق سے دست بردارہوگئے۔
اس واقعے سے یہ ضرورمعلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کی کوئی تنظیم اگر حکمران یاریاست کے بغیر آزادانہ طورپر دشمن کے خلاف برسرپیکارہوجائے تواسے اپنے حالات کے لحاظ سے اس فیصلے میں معذوراورماجور سمجھاجاسکتاہے ۔ایسی کارروائیوں سے دشمن ہراساں ہوسکتاہے اورکبھی اس کی وجہ سے کوئی ضمنی یا جزوی فائدہ ہوسکتاہے جیساکہ یہاں ہواکہ صلح کی ایک شق منسوخ ہوئی اورکچھ مظلوم مسلمانوں کوامان مل گئی۔
مگر اس سے یہ مطلب نہیں نکالاجاسکتاکہ اگلی فیصلہ کن فتوحات ان کاروائیوں کی مرہون منت تھیںا۔ بلکہ فیصلہ کن جہاد ہمیشہ ریاستِ مدینہ نے کیا۔اگر وہ ریاست نہ ہوتی تو ایک گروہ کی کارروائیاں تنہا حالات کونہیں بدل سکتی تھیںبلکہ شاید طویل مدت تک ان جاری رہنابھی ممکن نہ ہوتا۔
خلافتِ راشدہ میں بھی اس کی ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے ۔ یہ حضرت مثنیٰ بن حارثہ کی عراقی سرحد پر کارروائیاں تھیں ۔ یہ سرحدی سردارتھے اورعراق پر چھاپہ مارحملے کرتے رہتے تھے۔مگر ان حملوں کانتیجہ اسی وقت برآمد ہواجب مثنیٰ بن حارثہ ،مدینہ آئے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے بات چیت کرکے ریاستی طاقت کوساتھ لیا ۔اس کے بعد عراق وایران کی فتوحات کاسلسلہ شروع ہوا۔
 ہمیں ہر دورمیں چند مستثنیٰ صورتوں کو چھوڑکرہمیشہ جہاد حکومت ،خلیفہ یا سلطان کے ماتحت دکھائی دے گا۔اگر کچھ لوگ آزادنہ لڑتے بھی نظر آئیں گے توآپ جلد یابدیر انہیں کسی حکومت کی سرپرستی میں جاتایا ختم ہوتادیکھیں گے۔
آزادانہ جہاد کوئی آئیڈیل شکل نہیں بلکہ اس کی مثال اضطراری حالت کی سی ہے۔جیسے سمند رمیں پھینک دیاگیاشخص کسی نہ کسی طرح بچنے کی کوشش کرتاہے ۔ممکن ہے ایسا کوئی شخص کرشماتی طورپر تیر کرسمند رعبور بھی کرلے ۔لیکن اس کی وجہ سے ہم دوسرے لوگوں کو یہ دعوت نہیں دے سکتے کہ وہ تیر کر سمند رپارجائیں۔اس کے لیے متعاد طریقہ بحری جہاز کاہے ۔ جن مسلم ممالک پر کفار نے قبضہ کیا،ہمیں وہاں تنظیمی جہاد کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اضطراری حالت تھی۔ اس میں بھی یہ بات محلِ نظر ہوگی کہ آیا ایسے میںمسلمانوں پر جہاد واجب ہے یاہجرت ۔ ایسی پہلی مثال سسلی کی ہے جہاں پانچویں صدی ہجری میں عیسائی مسلط ہوگئے۔ مسلمان ایک صدی تک مختلف گروہوں کی شکل میں لڑتے رہے مگر آخرکاران کاخاتمہ ہوگیا۔
ایسی دوسری مثال فلسطین کی ہے جہاں پانچویں صدی ہجری میں بیت المقدس پر عیسائی قابض ہوئے۔ مسلمان چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں اسے آزاد کرانے کی کوشش کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ نوے سال بعد سلطان صلاح الدین نے شام اورمصر کومتحد کرکے ایک عظیم سلطنت قائم کی۔اس سلطنت نے عیسائیوں کوشکست دی اورالقد س کوآزاد کرایا۔ بصورتِ دیگر شاید دوتین صدیاں مزید بیت جاتیں۔
تاتاریوں کاحملہ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ جب وہ سمرقند وبخاراسے بغدادتک مسلم ممالک پر قابض ہوئے تو ان کے مقابلے میں کئی جگہ مزاحمت ہوئی مگر ہر جگہ ناکامی ہوئی اورلاکھوں مسلمان قتل ہوتے چلے گئے۔ سلطان جلال الدین کی بادشاہت جب تک رہی ،جہاد زندہ رہا مگر ان کے بعد تاتاریوں کو روکنے والاکوئی نہ رہا۔
آخر مصر کی حکومت کواللہ نے جہاد کی توفیق دی۔ سلطان سیف الدین قطز ،رکن الدین بیبرس اورسیف الدین قلاوون نے یکے بعددیگرے تاتاریوں کو شکستیں دیں۔ ظاہری اسباب میں مضبوط ریاست ہی اس کاسبب تھی۔اس موقع پر امام نووی نے جو فتویٰ دیاتھا وہ بھی قابلِ غور ہے۔سلطان بیبرس نے جہاد کی تیاری کے لیے عوام سے جبری چندہ لینے کاسلسلہ شروع کردیاتھا۔امام نووی نے اس پر فتویٰ دیاکہ جہاد کی اصل ذمہ داری حکومت اورحکمران پر ہے،کیونکہ عوام نے انہیں حکمران اسی لیے مانا ہے کہ وہ ان پرعائد سیاسی ذمہ داریوں میں ان کی نیابت کرے۔ اب حکمران کوحق نہیں کہ وہ اس ذمہ دار ی کودوبارہ عوام پر عائد کرے ،سوائے اس صورت کے کہ حکومت اپنی ساری طاقت اوروسائل خرچ کرکے بھی دشمن سے مقابلے کے قابل نہ ہو۔ایسے میں عوام سے جانی ومالی خدمت لی جاسکتی ہے۔ امام نووی نے اس بارے میں بادشاہ کوباقاعدہ خط لکھاکیونکہ بادشاہ یہ اعلان کررہاتھاکہ جہاد صرف فوج پر واجب نہیں بلکہ ہرمسلمان کواس میں حصہ لیناچاہیے۔آپ کاکہناہے کہ جہا د صرف فوج پر واجب نہیں۔‘ہم نے اس کاانکارنہیں کیا۔لیکن جہاد فرضِ کفایہ ہے۔جب سلطان نے اس کے لیے افواج مخصوص کردی ہیںجنہیں واقعی بیت المال سے خرچہ مل رہا ہے توباقی رعایا ان کاموں کے لیے فارغ ہوجاتی ہے جن میں ان کااپنا،فوج کا اورسلطان کا فائدہ ہے یعنی کاشت کاری ،صنعت وحرفت وغیرہ ۔یہ وہ کام ہیں جو سب کے لیے ضروری ہیں۔فوج کے جہاد کے لیے بیت المال سے رقم مقررہے۔پس عوام سے جہاد کے لیے کچھ لینا جائزنہیں جب تک کہ بیت المال میں کوئی نقد،جنس یا جائداد موجود ہو جسے بیچ کر ضرورت پوری کی جاسکے۔   
سلطنتِ عثمانیہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کاآخری روشن نشان تھی۔اس نے یورپ کے قلب پر حملے کیے اورایک مدتِ درازتک ان کے عالمگیر تسلط کی راہ میں حائل رہی۔سلطنتِ عثمانیہ پوری دنیا میں ان مسلمان قائدین کی بھی اعانت کرتی رہی جو اپنے اپنے ملکوں میں استعمار سے برسرپیکار تھے۔
سلطنت عثمانیہ کے دورِز وال میں استعماری قوتیں الجزائر، تیونس ،مصر ،شام ،وسطِ ایشیا،عراق اورہندوستان سمیت متعدد اسلامی ملکوں پر قابض ہوئیں۔ ان تمام ملکوں میں گاہے گاہے جہادی تحریکیں بھی اٹھتی رہیں مگر جرأت وشجاعت کی شاندار مثالیں قائم کرنے کے بعد جلد یابدیر سبھی دم توڑ گئیں۔ کوئی ایک ملک بھی ایسانہیں جسے باقاعدہ جہادکرکے آزاد کرایاگیاہو اوروہاں جہاد ی قائدین کی حکومت قائم ہوئی ہو۔ ہاں افغانستان کی مثال دی دی جاسکتی ہے مگرروس سے برسرپیکار وہاں کی تنظیموں کے پیچھے ایک بہت بڑانیٹ ورک کام کررہاتھاجس کی صفِ اول میں پاکستان اورسعودی عرب تھے۔ جب کہ امریکا ،روس کے خطرے سے بچنے کے لیے مجاہدین کو بے پناہ اسلحہ دے رہاتھااورمیڈیاکی سطح پربھی وہ پوری طرح مجاہدین کے ساتھ تھا۔
کشمیر ی اورفلسطینی مجاہدین کی لڑائی کوبھی اسی تناظر میں دیکھناچاہیے ۔چونکہ یہ لڑائی مختلف گروہ لڑرہے ہیں اس لیے اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا مگر چونکہ انہیں دوسرے مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت حاصل ہے اس لیے ایک طویل مدت تک لڑکربھی وہ ختم نہیں ہوئے۔پاکستان کی طرف سے مجاہدینِ کشمیر کو کنٹرول کیاجارہاہے اس لیے یہ ریاست اور ایک حکمران کی قیاد ت میں جہاد ہے۔
دورحاضر کے اکثرمسلم حکمرانوں پرفسق کاالزام ضرورلگایاجاسکتاہے مگر انہیں اسلام سے بالکل بے گانہ سمجھنااورمسلم ریاستوں کی حکومتوں کو قطعی طورپرکفار کاایجنٹ مان لینا ایک جذباتی با ت ہے۔ میراخیال ہے اس بارے میں حسن ظن کی گنجائش نکالنی چاہیے۔ ہر کلمہ گو کے بارے میں شریعت ہمیں یہی حکم دیتی ہے۔ پھر ہمارے حکمران ۱۹۷۳ء کے اس آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں جس کی تدوین میں ہر مکتبِ فکر کے جید علماء شریک تھے۔ اس لیے ایسے حکمرانوں کی قیادت میںسرحدوں کی حفاظت یاکفارسے جنگ کوجہاد ہی کہاجائے گا۔اوران کے ماتحت اگر کسی جگہ گروہی یاتنظیمی طورپر چھاپہ مار جنگ ہورہی ہے تو بھی جہاد ہے۔ کوئی بھی مسلم ریاست کسی علاقے کے مسلمان گروہوں کواپنے کسی دشمن کے خلاف متحرک کرتی ہے یاان سے اشتراکِ عمل کرتی ہے اور مقصد دین کی بقا اورم سلمانوں کی حفاظت ہے تو یہ یقیناجہاد ہے۔مگر انتظامی پہلوسے ان معاملات کو بار بار اچھی طرح دیکھناچاہیے کہ نفع زیادہ ہے یامضرت۔
جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ جہاد اس وقت ہوگاجب امت کاامام اورخلیفہ ایک ہواورسب مسلمان متحد ہوکراس کے پرچم تلے جہاد کریں تو میرے خیال میں ایسا طے کرلینا،جہاد کوبہت مؤخر اورملتوی کرنے کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں دیکھ لیں کہ مسلم حکمران اپنی اپنے ریاستوں کی طاقت کولے کرالگ الگ سرحدوں پر الگ الگ جہاد کرتے رہے۔ سلطان محمود غزنوی اورسلطان صلاح الدین ایوبی نے بھی ایساہی کیا۔ خلافت عباسیہ اس وقت ضرورتھی مگراس کی حیثیت رسمی تھی ۔ایسانہیں تھاکہ سلاطین خلیفہ کے کہنے پر جہاد کرتے ہوں اوراس کے منع کرنے پر جہاد بند کردیتے ہوں ۔بلکہ وہ اپنی صوابدید اوراپنے فیصلوں پر جہاد کرتے تھے۔ 
جہاد کے موضو ع پر کلام کرتے ہوئے ہمیں ان سب پہلوؤں کودیکھناچاہیے۔‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 استاذ القراء کاسفرِ آخرت 1 1
3 فنا فی القرآن 2 1
4 مثالی استاذ 3 1
5 استاذ گرامی کی کچھ یادیں 4 1
6 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۱) 5 1
7 صحیح ابن حبان۔ایک عظیم علمی کارنامہ(۲) 6 1
8 پاک بھارت جنگ کے امکانات …اورمعرکۂ پانی پت 7 1
9 رمضان اورقرآن 8 1
10 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۱) 9 1
11 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۲) 10 1
12 سقوطِ خلافت کی دل خراش یادیں(۳) 11 1
13 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار [1] 12 1
14 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۲) 13 1
15 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق 15 1
16 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۲) 16 1
17 اورنگ زیب عالمگیر،سیکولر لابی ،اورچند حقائق (۳) 17 1
18 سیرتِ نبویہ کے جلسے اورواعظین کے لیے لمحۂ فکریہ 18 1
19 ترک عوام جنہوںنے تاریخ بدل دی 19 1
20 اسلام میں جہاد کاتصور…اسلامی نظریاتی کانفرنس کااجلاس 20 1
21 نعمتوں کی ناقدری 21 1
22 یوم پاکستان اوردینی مدارس 22 1
23 دسمبر سے دسمبر تک 23 1
24 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۱) 24 1
25 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۲) 25 1
26 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۳) 26 1
27 تاریخِ اندلس کاآخری باب (۴) 27 1
28 اکبر اوردینِ الہٰی 28 1
29 اللہ کی امانت (۱) 29 1
30 اللہ کی امانت (۲) 30 1
31 شیخ النمر کی سزائے موت 31 1
32 سمندری شیر(1) 32 1
33 سمندری شیر(2) 33 1
34 سمندری شیر(3) 34 1
35 ایک دن بھاولپور میں 35 1
36 ایدھی صاحب 36 1
37 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے 37 1
38 فیصل آباد میں پندرہ گھنٹے (۲) 38 1
39 فضلائے مدارس کی کھپت ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۱) 39 1
40 مدارس کے فضلاء ۔ایک سنجیدہ مسئلہ (۲) 40 1
41 صحبتِ یا رآخر شد 41 1
42 صحبتِ یا رآخر شد(۲) 42 1
43 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج 43 1
44 حفاظت ِ دین کی کوششیں۔کل اورآج(۲) 44 1
45 انصاف زندہ ہے 45 1
46 جرمنی اورعالم اسلام(۱) 46 1
47 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (1) 49 1
48 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (2) 50 1
49 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (3) 51 1
50 عالمی جنگیں اورصہیونی سازشیں (4) 52 1
51 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(1) 53 1
52 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(2) 54 1
53 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(3) 55 1
54 پہلی عالمی جنگ سے تیسری عالمی جنگ تک(4) 56 1
55 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت 57 1
56 کشمیر…جنتِ ارضی یامقتلِ انسانیت (۲) 58 1
57 ایک قابلِ توجہ مسئلہ 59 1
58 کس منہ سے(۱) 60 1
59 کس منہ سے(۲) 61 1
61 سفر وسیلۂ ظفر 62 1
62 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے 63 1
63 لاہور اور قصور میں یادگار لمحے (۲) 64 1
64 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۱) 65 1
65 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۲) 66 1
66 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۳) 67 1
67 ابوالفضل ،مرزاعزیزالدین اورحضرت مجدد(۴) 68 1
68 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (1) 69 1
69 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۲) 70 1
70 مصطفی کمال سے طیب اردگان تک (۳) 71 1
71 بانی ٔ رُہتاس 72 1
72 بانی ٔ رُہتاس (۲) 73 1
73 بانی ٔ رُہتاس (۳) 74 1
74 شہ سواری اورتیراندازی 75 1
75 شام کی صورتحال اورمستقبل کے خطرات 76 1
76 تبدیلی کی کوشش(۱) 77 1
77 تبدیلی کی کوشش(۲) 78 1
78 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۱) 79 1
79 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۲) 80 1
80 کیا تاریخ غیراسلامی علم ہے ؟(۳) 81 1
81 تطہیر الجنان۔ایک لاجواب شاہکار 82 1
82 تہذیب حجاز ی کامزار(1) 83 1
83 تہذیب حجاز ی کامزار (2) 84 1
84 تہذیب حجاز ی کامزار (3) 85 1
85 تہذیب حجاز ی کامزار (4) 86 1
86 تہذیب حجاز ی کامزار (5) 87 1
87 تہذیب حجاز ی کامزار (6) 88 1
88 تہذیب حجاز ی کامزار (7) 89 1
89 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۱) 90 1
90 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۲) 91 1
91 یہود الدونمہ ۔ایک خفیہ تباہ کن تحریک (۳) 92 1
92 یوسف بن تاشفین(۱) 93 1
93 یوسف بن تاشفین(۲) 94 1
94 یوسف بن تاشفین(۳) 95 1
95 جرمنی اورعالم اسلام (۲) 47 1
96 جرمنی اورعالم اسلام (۳) 48 1
97 شیخ محمد بن عبدالوہاب ،آلِ سعود اورایرانی حکومت 96 1
98 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا 97 1
99 گجرات …مودی اورمحمود بیگڑا (۲) 98 1
100 خود احتسابی اور سروے کا طریقِ کار 99 1
101 اونچی اڑان 100 1
102 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین 101 1
103 محمد بن اسحق،ان کی سیرت اوران کے ناقدین (۲) 102 1
104 اورنگ زیب عالمگیر کاروشن کردار (۳) 14 1
Flag Counter