استاذ القراء کاسفرِ آخرت
بارہ ربیع الاول1437ھ کی شب پانی پتی قراء کاسالارِ قافلہ رخصت ہوگیا۔ محفل اجڑ گئی کہ صدرِ محفل ہی رہا۔ شمع بجھ گئی اورانجمن سونی ہوگئی۔
بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب تقریباً پونے دوبجے حضرت قاری صاحب کے ایک شاگرد کامیسج ملا کہ استاذ القراء حضرت قاری محمدیاسین صاحب پانی پتی ،دنیاسے رخصت ہوگئے ہیں۔یہ الفاظ پڑھ کر یوں لگا جیسے سروں کاسایہ ہی نہیں ، آسمان بھی چھن گیاہو۔
اگرچہ دنیا میں آنے والے ہر کس وناکس نے جاناہے۔ پھر گزشتہ کئی ہفتوں سے علماء وصالحین کی ایک قطار گزرتی جارہی ہے ۔ایسے میں حضرت قاری صاحب کاسانحۂ ارتحال کوئی غیر متوقع نہ تھا ۔ہم سب واقف تھے کہ قاری صاحب متعددسخت امراض میںمبتلاتھے۔ دل کاعارضہ بھی تھا ، گردوں کی حالت بھی تشویش ناک تھی ۔جسم میں خون بھی نہیں بن رہاتھا۔ نقاہت ایسی تھی کہ چلنا پھرنا مشکل تھا۔ یہ حالت کئی سال سے تھی ۔ان سالوں میں حضرت کتنی بار ہسپتال میں داخل ہوئے، یہ شمار کرنامشکل ہے۔کئی بار ایساہواکہ لگتاتھااب آخری وقت ہے۔ مگر ہمت کایہ عالم تھاکہ جوں ہی سانسیں بحال ہوتیں ،پھر مدرسے جاناشروع کردیتے اورمسندِ درس کو آباد رکھتے۔ خود فرماتے تھے کہ میں کہیں بھی ہوں ،چین یہیں آکرملتاہے۔ ایسے میں ہمیں بھی آس تھی کہ قاری صاحب لاکھ بیمار ہوں مگر ان شا ء اللہ ابھی مزید کئی سالوں تک ان کاسایہ سرپر رہے گااوراگر ہم پہلے رخصت ہوگئے تو ان کی دعائے مغفرت سے محروم نہیں رہیں گے۔
بہرحال مقدر میں جو لکھاہو، وہی ہوتاہے۔ حضرت کی وفات کاسن کر نیند اڑگئی۔ صبح ہوتے ہی کراچی پہنچنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کی۔حسن ابدال منتقل ہونے کے بعد راقم کے کئی بزرگ کراچی کی خاک میں گم ہوچکے ہیں ۔راقم کوایسے حضرات کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرسکنے کاقلق ہی رہتا ہے۔ حضرت قاری صاحب کی وفات کی اطلاع ملنے پر بھی ایساہی لگ رہاتھا کہ شرکت نہ ہوسکے گی ،دل سے دعا شروع کی یا اللہ اس بار کسی بھی طرح پہنچادے۔اس دوران حضرت کے منجھلے صاحبزادے مولانا رشید احمد نے بتایاکہ دونوں بڑے بھائی مولانا محمد زاہد صاحب اور قاری محمد عابد صاحب امریکا سے پہنچ رہے ہیں۔پھر چھوٹے صاحبزادے مولانا محمد ساجدنے اطلاع دی کہ نمازِ جنازہ کا وقت بعد نمازِ جمعہ طے ہواہے۔اس اطلاع پر کچھ امید بندھی۔حسن ابدال سے راولپنڈی اسلام آباد تک ہم آٹھ ،دس ٹریول ایجنسیوں پر گئے مگر کسی بس میں کوئی جگہ نہ تھی کیونکہ سردیوں کی تعطیلات کے باعث ایک جم غفیر دوسرے شہرو ں کو جا رہا تھا۔ ہم سورۂ یاسین پڑھ کردعاکرتے رہے۔آخر شام پانچ بجے ڈائیو سے ـملتان تک کے چار ٹکٹ مل گئے۔ بھائی جان قاری محبوب الٰہی ، قاری محمدبلال (چکوال)،راقم او ر راقم کا بڑا لڑکاحسان احمد ،ہم چار مسافر تھے۔ چاروں نے حضرت قاری صاحب سے حفظِ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی تھی۔ رات ایک بجے ہم ملتا ن پہنچے اورقاری عبدالرحمن رحیمی صاحب کے زیرانتظام مدرسہ نعمۃ الرحیم حسین آگاہی میں رات گزاری، جس کی بنیاد حضرت مجددقرآت قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ کے فرزند وجانشین ، استادالقراء حضرت قاری عبیداللہ صاحب مرحوم نے رکھی تھی۔ قاری عبدالرحمن رحیمی صاحب کواللہ بہت جزائے خیر دے کہ انہوںنے ہمارے لیے کراچی تک پی آئی اے کے ٹکٹ بک کرارکھے تھے۔
اس طرح ہم پونے نو بجے پی آئی اے کے طیارے میں سوارہوگئے۔ دیکھا تو طیارے میں ایک بڑی تعداد ان حضرات کی تھی جو نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ہی کراچی تشریف لے جارہے تھے۔ان میں خیرالمدارس کے شعبہ حفظ وتجوید کے نگران حضرت قاری محمداسحق ہشیارپوری صاحب بھی تھے ،جو حضرت قاری محمد یاسین صاحب کے قدیم رفقاء میں سے ایک ہیں۔
دس بجے ہم کراچی پہنچ گئے اوراپنی رہائش گاہ پرسامان رکھ کر سیدھا ناظم آبادحضرت قاری صاحب کے دولت کدے پر حاضر ہوئے جہاں ان کے اعزہ واقارب، شاگردوں اور عقیدت مندوں کاہجوم تھا۔ قاری صاحب کاجسدِ خاکی کفن میں لپٹا ہواچارپائی پر رکھاتھا۔ چند دن قبل ہی بخاری شریف’’باب الدخول علی ا لمیت بعدالموت اذا ادرج فی اکفانہ ‘‘کے تحت وہ روایت زیرِ مطالعہ تھی جس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا ت پر کفن کھول کر پیشانی مبارک کوبوسا دینے کا ذکرہے۔ اس سنت کی اتباع میں جب حضرت قاری صاحب کی پیشانی کو بوسادیاتو ضبط کی تاب نہ رہی ۔اس حادثے کا تحمل ہوبھی کیسے سکتاتھا۔
28 سال پہلے صاحبزادہ قاری محمد عابد صاحب اورراقم حضرت قاری صاحب کی درسگاہ میں ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ہمارامحبت والفت کارشتہ تب سے بہت گہراہے۔حضرت مولانا قاری محمد زاہد صاحب اس وقت جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں عالم بن رہے تھے۔ تب سے وہ بڑے بھائیوں جیسی شفقت ومحبت فرماتے ہیں ۔استاذگرامی کے سب فرزندبلاشبہ ہمارے مخدوم ہیں مگر یہ ان کی محبت و تواضع ہے کہ بالکل بھائیوں جیسا برتاؤ فرماتے ہیں۔
صاحبزادہ رشید احمد سلمہ نے بتایا کہ حضرت قاری صاحب اس مہینے کے شروع میں مدرسے تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک سخت بیمار پڑگئے۔ ہسپتال میں کئی دن بے ہوش رہے ۔لگتاتھاکہ آخری وقت ہے۔امریکا سے صاحبزادے روانگی کے لیے تیارہوچکے تھے مگر قاری صاحب کی طبیعت سنبھل گئی اور وہ دوبارہ مسندِ درس پر بیٹھنے لگے۔ حضرت اتوار کے دن تک مدرسے جارہے تھے۔ پھر طبیعت خراب ہو نے کی وجہ سے دودن نہ جاسکے۔ بدھ کی صبح طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انہیںایس آئی یو ٹی ہسپتال کراچی میں داخل کرادیاگیا۔ وہیں شب گیارہ بج کرچالیس منٹ پر حضرت دارِ فانی سے دارِ عقبیٰ کے سفر پرر وانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
گھر سے سوا بارہ بجے جنازہ دارالعلوم کراچی روانہ ہوا۔وہاں جنازے کودارالقرآن میں رکھا گیا ، جہاں لوگ آخری دیدار کے لیے جو ق درجو ق آتے رہے۔ یہاں نانکواڑہ کے فضلاء اورحضرت کے مستفیدین کابہت بڑامجمع پہلے سے موجودتھا۔ان میں سے بعض ساتھیوں سے ستائیس اٹھائیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ نمازِ جمعہ کے خطا ب میں حضرت مولانا محمود اشرف عثمانی صاحب نے موقع کی مناسبت سے قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کی عظمت پرعالمانہ گفتگو فرمائی ۔ نماز ِ جمعہ کے بعد مسجد کے سامنے میدان میں حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے نماز جنازہ پڑھائی اوراس سے قبل بڑے مؤثرالفاظ میں حضرت قاری صاحب مرحوم کی خدمات کوخراجِ تحسین پیش کیااوران کے پس ماندگان سے تعزیت کی۔ قبر کی جگہ دارالعلوم کراچی کے قدیم قبرستان کے عین وسط میں ملی۔ حضرت قاری صاحب کا جسدِ خاکی اس مبارک مٹی میں مل گیا جہاں سے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب اورڈاکٹر عبدالحئی عارفی صاحب جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کاخمیر اٹھایاگیاتھا۔
حضرت قاری صاحب کے بعد ان کے تلامذہ کی حالت یہ ہے کہ
محفل اجاڑ ،شمع فسردہ ،فضا خموش
بکھری ہوئی پتنگوں کی لاشیں زمین پر
یہ ایساصدمہ ہے کہ سمجھ نہیں آتا کیالکھوں کیسے لکھوں۔ مضمون یہ سوچ کرلکھنا شروع کیاتھاکہ حضرت قاری صاحب کے وہ حالات وواقعات نقل کروں گا جن میں قارئین خصوصاً مدرسین حضرات کے لیے عبرت ونصیحت کے کئی پہلو ہوں گے۔ مگر جذبات کی رو میں قلم اپنے ہدف پر نہیں رہا۔ ان شاء اللہ حضرت قاری صاحب کی زندگی کے ان پہلوؤں پرآئندہ لکھاجائے گا۔
اللہ سے یہی دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے نقشِ قدم پر چلاکرقرآن مجید کی خدمت والوں کے ساتھ محشور فرمائے۔ آمین یا الہ العالمین