سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
مشاورت کے بعدانہوں نے آپؐ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ تقاضاکیا: صِفْ لَنَا المَسْجِدَ یعنی مسجدِاقصیٰ کے بارے میں ہمیں کچھ بتائیے… جس پرآپؐ انہیں مسجداقصیٰ کے بارے میں بتاتے رہے،ان کے سوالات کے جوابات دیتے رہے…مگربعض سوالات انہوں نے ایسے کئے جن کے جواب میں آپؐ کوکچھ ترددہونے لگا،کیونکہ ظاہرہے کہ آپؐنے بیت المقدس اورمسجدِاقصیٰ میں اپنے اس مختصرترین قیام کے دوران وہاں کی ہرچیزکابغورمشاہدہ تونہیں کیاتھا… مزیدیہ کہ یہ بات توآپؐکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ اس بارے میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ سوال وجواب کی نوبت آئے گی۔ چنانچہ اب ان کے مسلسل سوالات کے نتیجے میں آپؐ کوجب کچھ ترددہونے لگا…تواللہ کی قدرت سے بطورِمعجزہ کیفیت یہ ہوگئی کہ آپؐکیلئے پردے ہٹادئیے گئے اورمسافتیں سمیٹ دی گئیں،اورآپؐکویوں محسوس ہونے لگاگویامسجداقصیٰ بالکل آپؐکی آنکھوں کے سامنے ہی موجودہے(۱) اورتب آپؐنہایت روانی کے ساتھ اوربلاکسی ترددکے ان کے ہرسوال کاجواب دینے لگے…اس پروہ لوگ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے آپؐکے بارے میںیوں کہنے لگے: أمّا النّعْتُ فَقَد أصَابَ … یعنی’’ مسجدِاقصیٰ کی اوصاف وعلامات توبالکل درست بیان کی ہیں‘‘۔ یوں مشرکینِ مکہ نے رسول اللہﷺ کی اس سچائی کوجان بھی لیا…اورپھرخوب جانچ بھی لیا… مگراس کے باوجوداس سچائی کوقبول نہیں کیا۔ ------------------------------ (۱)جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں : فَجِییٔ بِالمَسجِدِ حَتّیٰ وُضِعَ، فَنَعَتُّ المَسجِدَ وَ أنَا أنظُرُ اِلَیہِ یعنی گویاکہ مسجدمیرے سامنے ہی لاکررکھدی گئی اورمیں یوں انہیں مسجدکے اوصاف وعلامات بتاتارہا گویامیں اپنی آنکھوں سے مسجدکانظارہ کرہاہوں… (النسائی فی السنن الکبریٰ : ۱۰/۱۴۸)