سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ترجمہ:(’’نہیں نہیں!اللہ کی قسم !اللہ آپ کوہرگزاس کام میں رسوانہیں کرے گا،کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں،مہمان نوازہیں، محتاجوں اورغریبوں کی مددکرتے ہیں،اورراہِ حق میں لوگوں کی مددکرنے والے ہیں‘‘)(۱) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپﷺکوتسلی تودی، اوراس یقین کااظہاربھی کیاکہ جب آپؐکااخلاق اس قدراچھاہے توپھراللہ کی طرف سے یقیناآپؐ کی حفاظت اورمددونصرت کاغیبی انتظام بھی ضرورہوگا…! لیکن ظاہرہے کہ یہ بات خودان کیلئے بھی بڑی تشویش کاباعث تھی۔چنانچہ وہ مزیداطمینان اورتسلی کی غرض سے فوراًہی آپؐکواپنے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جوظہورِاسلام سے قبل ہی بت پرستی سے بیزارہوکرایک عرصے تک تلاشِ حق میں سرگرداں رہے،اورپھرتلاش وجستجوکے بعدبالآخراپنی دانست کے مطابق اس وقت کے صحیح دین یعنی ’’نصرانیت‘‘کوقبول کرچکے تھے،اوراکثرانجیل بھی پڑھتے رہتے تھے،انتہائی عمررسیدہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہارسول اللہ ﷺکوہمراہ لئے ہوئے ورقہ کے پاس پہنچیں اورکہاکہ دیکھویہ (رسولﷺ) کیاکہتے ہیں…! اس پرورقہ نے آپؐکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہاکہ بولوبھتیجے کیابات ہے؟ تب آپ ؐنے تمام ماجرابیان فرمایا۔جسے سننے کے بعد ورقہ بن نوفل نے کہا: (ھٰذا النّاموس الّذي أنزلَہُ اللّہُ عَلیٰ مُوسیٰ) یعنی ’’یہ تووہی ناموس ہے جواللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جانب نازل کیاتھا‘‘۔ اس کے بعدمزیدکہا: یَالَیتَنِيجَذَعاً ، ------------------------------ (۱) غورطلب بات ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ ﷺ کے اخلاق کی بلندی وعظمت کایہ حال تھاتوبعثت کے بعدکیاکیفیت ہوگی…؟