سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اورحلیمہ کی سہیلیاں باربارراستے میں رک کراس کاانتظارکرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کاوقت آیاتوکیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی اس قدرچست اورتیزرفتارہوگئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی ،جس پرحلیمہ کی سہیلیاں باربارانہیںپیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ رک جاؤ… کچھ ہمارابھی توخیال کرلو… اورباربارپوچھتیں کہ حلیمہ کیایہ تمہاری وہی گدھی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی توہے… اس پروہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی’’بخداآج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘ اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعدان کی کھیتی باڑی اورغلہ وخوراک وغیرہ … غرضیکہ ہرچیزمیں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیزطورپربہتری اوربرکت کے آثارنمایاں ہوتے چلے گئے، خودحلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی …جس پروہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اوربہت زیادہ خوش بھی،حتیٰ کہ ایک روزحلیمہ کے شوہرنے انہیں کہا:(تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی:’’حلیمہ! یقین کرو،بخدامجھے تویوں لگتاہے کہ تم یہ جوبچہ لائی ہویہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پرحلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی:’’بخدامجھے بھی ایساہی محسوس ہوتاہے…‘‘۔ اوریوں حلیمہ سعدیہ اوران کے افرادِخانہ کواس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدروقیمت کامکمل ادراک واحساس ہوااوروہ اس کی بدولت فیوض وبرکات کااپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اورخوب مستفیدومستفیض بھی ہوتے رہے…! دوسال دیکھتے ہی دیکھتے گذرگئے… حلیمہ کادل بالکل نہیں چاہتاتھاکہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلاجائے،لیکن مدتِ رضاعت پوری ہوچکی تھی،لہٰذابادلِ ناخواستہ وہ اسے اس