سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
پتھربرسائے…یاہمیںکسی بڑے عذاب میں مبتلاکرکے دکھائے‘‘۔ مشرکینِ مکہ کی اسی بیہودہ گوئی کاقرآن کریم میں یوں تذکرہ کیاگیاہے:{وَاِذ قَالُوا اللّھُمَّ اِن کَانَ ھٰذَا ھُوَا الحَقَّ مِن عِندِکَ فَأمطِرْ عَلَینَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَائِ أَو ائْتِنَا بِعَذَابٍ ألِیمٍ} (۱) ترجمہ:(اورجب ان لوگوں نے کہاکہ اے اللہ!اگریہ قرآن تیری طرف سے واقعی ہے توہم پرآسمان سے پتھربرسا ٗیاہم پرکوئی دردناک عذاب واقع کردے) اس پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیبﷺکومخاطب کرتے ہوئے یہ ارشادہوا: {وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَھُم وَأنتَ فِیھِم…} (۲) ترجمہ:(اوراللہ تعالیٰ ایسانہیں کرے گاکہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے انہیں عذاب دے…) اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ رسول اللہﷺکاوجودمسعودتمام بنی نوعِ انساں کیلئے ٗ حتیٰ کہ بدترین دشمنوں ٗمخالفوں ٗبدخواہوںاورتمسخرواستہزاء کرنے والوں کیلئے بھی باعثِ رحمت تھا…اسی حقیقت کاقرآن کریم میں ان الفاظ میں تذکرہ کیاگیاہے:{وَمَا أَرسَلْنَاکَ اِلَّارَحمَۃً لِّلعَالَمِینَ} (۳) یعنی’’[اے نبیؐ]ہم نے آپ کوتمام دنیاوالوں کیلئے رحمت بناکرہی بھیجاہے‘‘ اورپھربالخصوص اپنی امت کیلئے آپ ﷺکے قلبِ مبارک میں خیرخواہی وہمدردی کے جو جذبات تھے…اپنی امت کی صلاح وفلاح کی خاطر آپؐ جس طرح ہمیشہ فکرمنداور کوشاںرہاکرتے تھے…اورامت کی رہبری ورہنمائی کی خاطرآپؐ جس طرح ہمیشہ مشغول ومنہمک رہاکرتے تھے…اسی حقیقت کی طرف اشارے کے طورپرقرآن کریم ------------------------------ (۱)انفال[ ۳۲] (۲) انفال [۳۳] (۳) الأنبیاء[۱۰۷]