سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ہمارے پاس چونکہ اللہ کی کتاب (قرآن کریم)موجودہے ،لہٰذاوہ ہمارے لئیکافی ہے ، ہمیں اس وقت رسول اللہﷺکوکسی مشکل یامشقت میں ڈالنے کی بجائے آپؐکی راحت اورآرام کی فکرکرنی چاہئے‘‘۔ یوں ان میں اختلافِ رائے ہونے لگا،کوئی کچھ کہتا…اورکوئی کچھ…جب شوروشغب زیادہ بڑھنے لگا…توآخررسول اللہﷺنے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’تم سب یہاں سے اٹھ جاؤ‘‘۔ اوریوں وہ اہم بات نہیں لکھی جاسکی جورسول اللہﷺبالکل آخری ایام میں اپنی امت کیلئے لکھواناچاہتے تھے۔(۱) رسول اللہﷺشدتِ مرض اور ناسازیٔ طبع کے باوجوداب تک نمازکیلئے بدستورمسجد تشریف لاتے،اورتمام نمازیں خودہی پڑھاتے…اوراُس روزبھی…یعنی اپنی وفات سے محض چارروزقبل ٗ بتاریخ ۸/ربیع الاول بروزجمعرات چارنمازیں ٗیعنی فجر ٗظہر ٗ عصر ٗ اور مغرب کی نمازیںآپ ﷺنے خودہی پڑھائیں،البتہ یہ مغرب کی نمازآخری نمازتھی جو آپ ﷺنے پڑھائی …اس آخری نمازمیں آپ ؐنے اُس روزسورۃ ’’المرسلات‘‘ تلاوت فرمائی تھی ( یعنی انتیسویں سپارے [تبارک]کی آخری سورت ) ۔ ------------------------------ (۱) اس واقعے کے حوالے سے متعدداہلِ علم نے یہ اظہارِخیال کیاہے کہ رسول اللہﷺکایہ حکم غالباً ’’علیٰ الوجوب ‘‘ نہیں ہوگا، بلکہ محض احتیاطی تدبیرکے طورپرآپؐ کچھ لکھواناچاہتے ہوں گے…کیونکہ آپؐ کایہ حکم اگر’’علیٰ الوجوب‘‘ہوتااوراس کی تعمیل واجب اورضروری ہوتی توآپؐ دوبارہ بھی یہی حکم دے سکتے تھے…یاکم ازکم یہ کہ آپؐ زبانی ہی وہ وصیت فرمادیتے …لیکن آپؐ نے ایسانہیں فرمایا…آپؐ کاانتقال اس واقعے کے چاردن بعدہوا،اوراس دوران آپؐنے متعددوصیتیں بھی فرمائیںاورمختلف ہدایات بھی دیں،لیکن اس بارے میں کچھ ارشادنہیں فرمایا(تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو’’السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ‘‘تألیف ؛ دکتوراکرم ضیاء العمری ، صفحہ:۵۵۳)۔