سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
… لَعَلِّي لَا ألقَاکُم بَعدَ عَامِي ھٰذا… یعنی’’لوگو!یہ مناسکِ حج تم مجھ سے خوب اچھی طرح سیکھ لو… کیونکہ شایداب آئندہ کبھی اس مقام پرمیری تم سے ملاقات نہیں ہوسکے گی‘‘۔ جبکہ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی سورۃ ’’النصر‘‘بھی (۱) نازل ہوچکی تھی،جس میں فتحِ مکہ جیسے اہم ترین اورتاریخی واقعہ کے نتیجے میں لوگوں کے فوج درفوج قبولِ اسلام کاتذکرہ تھا… لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں ایک اشارہ بھی پوشیدہ تھا…اوروہ یہ کہ’’مقصدِبعثت اب پوراہوچکا…لہٰذااے ہمارے نبی …اب آپ کی واپسی کاوقت قریب ہے،اوراس چیز کا تقاضایہ ہے کہ اب آپ زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی تسبیح اورحمدوثناء بیان کیجئے ،اورتوبہ واستغفارکاخوب اہتمام کیجئے‘‘۔ اس موقع پربھی اس سورت کے معنیٰ ومفہوم میں چھپے ہوئے اس خاص ’’اشارے‘‘ کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی تھی…البتہ رسول اللہﷺکے خاص ساتھی اور’’یارِغار‘‘یعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اس خاص ’’اشارے‘‘ کوسمجھ گئے تھے…اورتب بے اختیاران کی آنکھوں سے آنسوبہہ نکلے تھے۔(۲) ------------------------------ (۱) اذاجاء نصر اللّہ والفتح… (۲)سورۃ النصرمیں پوشیدہ اسی’’ اشارے‘‘ کے تقاضوں پرعمل کرتے ہوئے ہرانسان کوچاہئے کہ اپنی عمرکے آخری حصے میں جب اس دنیائے فانی سے رخصتی کاوقت قریب آچکاہو… توبکثرت استغفارکااہتمام والتزام کرے ،کیونکہ دنیاسے رخصتی اوراپنے خالق ومالک کی طرف روانگی سے قبل انسان کیلئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ گناہوں کے بوجھ سے آزادہو،ظاہری وباطنی پاکیزگی ونفاست سے آراستہ ہو،عیوب ونقائص کم ہوں اورخیروخوبی زیادہ ہو،اس کی گردن میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کاکوئی بوجھ نہ ہو…بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ انسان کی ہمیشہ ہی یہی کیفیت رہنی چاہئے …کیونکہ کیامعلوم آخری وقت کب آجائے…؟؟