سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ہزاروں سال گذرجانے کے باوجودجزیرۃ العرب کے مشرکین بھی حجِ بیت اللہ کاخوب اہتمام کیاکرتے تھے،خصوصاًمشرکینِ مکہ کے نزدیک اس چیزکی مزیداہمیت تھی۔(۱) البتہ دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے کے بعدباقاعدہ اسلامی عبادت کی حیثیت سے فرضیتِ حج کاحکم ہجرت کے نویں سال حج کے موقع پر نازل ہوا،اوراس عبادت کودینِ اسلام کی اہم ترین عبادات ٗبلکہ’’ارکانِ اسلام‘‘میں شمارکیاگیا۔ چنانچہ اس حکم کے نزول کے بعدرسول اللہﷺنے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ’’امیرالحجاج‘‘مقررفرمایااورانہیں مسلمان حجاج کی قیادت کرتے ہوئے مکہ مکرمہ کی جانب روانگی کاحکم دیا۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعدسورۂ براء ۃ کی ابتدائی چالیس آیات نازل ہوئیں ٗجن میں کفارومشرکین کے ساتھ کئے گئے مختلف معاہدات کے خاتمے کا ٗنیز آئندہ کیلئے ان سے مکمل لاتعلقی وبرائت (بیزاری) کااعلان کیاگیاتھا،اسی ’’اعلانِ برائت‘‘ کی وجہ سے یہ سورت ’’براء ۃ‘‘کے نام سے مشہورہوگئی(۲) حج کے موقع پرچونکہ جزیرۃ العرب کے تمام اطراف اکناف سے آئے ہوئے حجاج بڑی تعدادمیں مکہ میں موجودہواکرتے تھے ٗ لہٰذایہ بات ضروری تھی کہ کسی طرح اس مناسب ترین موقع پریہ آیات وہاں مکہ میں تمام حجاج کے اجتماع میں پڑھ کرسنادی جائیں ،نیزان آیات کے مفہوم ومضمون اوران میں موجوداحکام سے انہیں آگاہ کردیاجائے۔ ------------------------------ (۱) یعنی دینِ ابراہیمی سے تووہ یقینا مکمل منحرف ہوچکے تھے، عقیدہ وایمان کافساد،نیزہرقسم کااخلاقی بگاڑبھی ان میں عروج پرتھا…البتہ اس کے باوجودبیت اللہ کااحترام اورحج کاسلسلہ بدستورجاری تھا۔ (۲)اس سورۃ کانام ’’توبہ‘‘بھی ہے کیونکہ اس میں ان تین حضرات (کعب بن مالک،ہلال بن امیہ اورمرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہم) کی قبولیتِ توبہ کاتذکرہ ہے جوغزوۂ تبوک کے موقع پرشریک نہیں ہوئے تھے۔