سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
نے اس قاصدکے ذریعے ان کیلئے بھجوائی تھیں: ٭پہلی تجویزیہ کہ قریشِ مکہ اپنے حلیف قبیلے کواس بات پرمجبورکریں کہ وہ مسلمانوں کے حلیف قبیلے کوپہنچنے والے نقصان کی مکمل تلافی کرے اور’’خون بہا‘‘وغیرہ اداکرے۔ ٭دوسری تجویزیہ کہ اگروہ اپنے اس حلیف قبیلے کونقصان کی تلافی پرمجبورنہیں کرسکتے توپھر ان سے لاتعلقی اورمکمل براء ت وبیزاری کااعلان واظہارکریں۔ ٭اگروہ ان مذکورہ دونوں تجویزوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں کرتے توپھرتیسری اور آخری تجویزیہ کہ اس معاہدۂ صلح کوختم کردیاجائے…کیونکہ جس صلح کی نہ توکوئی پابندی ہو ٗ اورنہ ہی اس کاکوئی فائدہ ہو…توپھرایسی صلح کاکیافائدہ…؟کہ جس کی پابندی ہی نہیں کرنی۔ قریشِ مکہ نے اس قاصدکی زبانی رسول اللہﷺکی طرف سے پیش فرمودہ یہ تینوں تجاویزسنیں،اورتب انہوں نے گھمنڈمیں آکرتیسری تجویزقبول کی،یعنی معاہدۂ صلح کے خاتمے کااعلان کردیا،اورقاصدکویہ کہتے ہوئے واپس چلے جانے کوکہاکہ’’آج کے بعد ہماری تمہاری صلح ختم…‘‘اس کاصریح مطلب یہ تھاکہ اب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے دوبارہ یہ ’’اعلانِ جنگ‘‘تھا۔(۱) رسول اللہﷺکاقاصدواپس مدینہ پہنچا،اوررسول اللہﷺکی خدمت میں حاضرہوکرتمام صورتِ حال سے مطلع کیا…اس پرآپؐنے بھی اپنے جان نثارصحابۂ کرام کوجنگ کیلئے تیاری کاحکم دیا،اورپھرسن آٹھ ہجری میں جب رمضان کامبارک مہینہ چل رہاتھا…تب ------------------------------ (۱)اوریوں مدنی زندگی کادوسرادورجس کی ابتداء’’صلحِ حدیبیہ‘‘سے ہوئی تھی ٗ دوسال جاری رہنے کے بعداپنے اختتام کوپہنچا،اوراب تیسرے اورآخری دورکاآغازہوا۔