سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
چنانچہ سن سات ہجری میں رسول اللہﷺاپنے چودہ سوجاں نثاروںکے ہمراہ مدینہ سے سفرکرتے ہوئے تقریباًایک سوپچاسی کلومیٹرکی مسافت پرواقع شہر’’خیبر‘‘پہنچے،مسلمانوں کی وہاں آمدپروہ لوگ قلعہ بندہوکربیٹھ گئے ، جس پرمسلمانوں نے ان کامحاصرہ کرلیا، مرورِوقت کے ساتھ متعددچھوٹے بڑے قلعے فتح ہوتے چلے گئے،کہیں معمولی مزاحمت ہوئی ، کہیں بڑی جنگ کی نوبت بھی آئی،البتہ ایک بہت بڑاقلعہ تھاجہاں کارروائی آگے نہیں بڑھ رہی تھی ، محاصرہ کافی طول پکڑچکاتھااوریہ چیزخودمسلمانوں کیلئے بھی کافی تشویش کا باعث بنی ہوئی تھی…آخرایک روزرسول اللہﷺنے فرمایا’’لَاُعْطِیَنَّ الرّایَۃَ غَداً رَجُلاً یُحِبَّ اللّہَ وَ رَسُولَہٰٗ وَ یُحُبُّہُ اللّہُ وَ رَسُولُہٗ‘‘ یعنی ’’کل میں جھنڈاایسے شخص کودوں گاجواللہ اوررسول سے محبت کرتاہے ٗ اوراللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘‘ ۔ ظاہرہے کہ رسول اللہﷺکی طرف سے یہ بہت بڑی خوشخبری تھی …اوربہت بڑی گواہی تھی … اُس شخص کے بارے میں کہ جسے کل علم سونپاجاناتھااورسپہ سالاری وقیادت کی ذمہ داری جس کے حوالے کی جانی تھی …اس کے حق میں یہ بہت بڑی گواہی تھی کہ وہ اللہ اوررسول سے محبت کرتاہے، نیزاللہ اوررسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ لشکرمیں موجودبڑے بڑے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ رات اسی آرزو میں گذاری کہ کاش کل صبح رسول اللہﷺمیرانام پکاریں…اورجب صبح کاسورج طلوع ہوا تورسول اللہﷺکی آوازگونجی’’أینَ عَلي‘‘ یعنی ’’علی کہاں ہیں؟‘‘ تب حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضرِخدمت ہوئے ، رسول اللہﷺنے اپنے دستِ مبارک سے انہیں عَلَم عطاء فرمایا، نیزفتح اورخیروبرکت کی دعائیں دیتے ہوئے انہیں رخصت فرمایا۔