سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
’’کسریٰ‘‘کے لقب سے یادکیاجاتاتھا،اُس زمانے میں’’ خسروپرویز‘‘نامی شخص کسریٰ تھا، یعنی فارس کابادشاہ تھا۔ سلطنتِ فارس کااگرچہ بڑاجاہ وجلال تھا، نیزیہ کہ خسروپرویزہی کا(ساسانی)خاندان ایک ہزارسال سے مسلسل نسل درنسل وہاں حکمرانی کررہاتھا، لیکن بالخصوص خسروپرویزکے دورِ حکومت میں سلطنتِ فارس کوجوجاہ وجلال اورعروج حاصل ہوا ٗ نیزوہاں کے شاہی دربارکو جوشان وشوکت اوررعب ودبدبہ نصیب ہوا… یہ چیزاس سے قبل کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی غرضیکہ خسروپرویزانتہائی شان وشوکت اورجاہ وجلال والابادشاہ تھا۔ رسول اللہﷺ کے قاصدکی حیثیت سے مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ (۱)نے ایک روزاپنے اہل وعیال کوالوداع کہا…اور آپؐ کانامۂ مبارک کسریٰ تک ------------------------------ (۱) عبداللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کسی بھی عام انسان کی طرح مکہ کے گلی کوچوں میں کھیلتے کودتے ہوئے جوان ہوئے تھے… لیکن دینِ اسلام قبول کرنے کے بعدان کے ساتھ ’’قیصروکسریٰ‘‘کے حوالے سے ایسے حالات وواقعات پیش آئے کہ جن کی وجہ سے ان کاتذکرہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات میں بلکہ کتبِ حدیث میں محفوظ ہوگیا، اُس وقت روئے زمین کی دونوں عظیم ترین قوتوں کے بادشاہوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی ، اورعجیب وغریب حالات وواقعات پیش آئے ، کسریٰ خسروپرویزکے ساتھ توان کی ملاقات اسی موقع پریعنی سنہسات ہجری میں رسول اللہﷺ کی طرف سے مختلف فرمانرؤاوں کے نام دعوتی خطوط ارسال کئے جانے کے موقع پرہوئی، جبکہ سنہ ۱۹ہجری میں خلیفۂ دوم حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب مشرق ومغرب میں ہرطرف اسلامی فتوحات کاایک سیلاب جاری تھا… تب یہ ملکِ شام میں سلطنتِ روم کے خلاف برسرِ پیکاراسلامی لشکرمیں شامل تھے ، وہاں ایک بارعجیب وغریب قسم کے حالات میں ایک ’’قیدی‘‘کی حیثیت سے انہیں قیصرِروم کے سامنے پیش کیاگیا… اورتبکس کس طرح اس نے ان کی دینی استقامت کاامتحان لیا…اورکیاکیاواقعات پیش آئے…اورکس طرح یہ سرخ روہوکروہاں سے واپس مدینہ پہنچے… ان واقعات کی وجہ سے تاریخ میں ان کانام ہمیشہ روشن رہے گا…اگراللہ کی طرف سے توفیق شاملِ حال رہی… اورزندگی نے وفاء کی …توان شاء اللہ کبھی ان کے حالات مفصل تحریرکروں گا، وماتوفیقی الاباللہ، علیہ توکلت والیہ اُنیب۔