سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
دراصل سلطنتِ روم اورسلطنتِ فارس میں باہم سالہاسال سے مختلف محاذوں پر خونریزقسم کی جنگوں کاسلسلہ چلاآرہاتھا، کبھی ایک فریق کوغلبہ نصیب ہوتا، اورکبھی دوسرے فریق کو… یوں سالہاسال سے یہ سلسلہ جاری تھا…اورچونکہ خطے کے دیگرتمام ممالک اور ان میں بسنے والے عوام ان دونوں میں سے کسی ایک کے تابعِ فرمان اورزیرِ اثرتھے ٗ لہٰذا فریقین میں سے کسی ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست کے دینی ٗسیاسی ٗسماجی واقتصادی اثرات صرف انہی دونوں تک محدودنہیں رہتے تھے ، بلکہ اس چیزکااثردوردرازکے علاقوں تک پہنچتاتھا، حتیٰ کہ اس چیزکااثرمکہ تک بھی پہنچتاتھا… فارسی چونکہ مشرک (آتش پرست)تھے، لہٰذاجب کسی محاذپرانہیں غلبہ نصیب ہوتاتومشرکینِ مکہ خوشیاں مناتے اور مسلمان غمگین ہوجاتے… جبکہ رومی چونکہ اہلِ کتاب تھے ٗ لہٰذا ان کی کامیابی پرمسلمان خوش ہوتے ٗ جبکہ مشرکین غمزدہ ہوجاتے…اس چیز کاتذکرہ قرآن کریم میں بھی ’’سورۃ الروم ‘‘کی بالکل ابتدائی آیات میں موجودہے ۔ جن دنوں حضرت دِحیہ بن خلیفہ الکلبی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکانامۂ مبارک قیصرِ روم تک پہنچانے کی غرض سے محوِ سفرتھے ٗ دراصل انہی دنوں کسی اہم محاذپررومیوں کوفارسیوں کے مقابلے میں کوئی بڑی فتح نصیب ہوئی تھی ،اوراہلِ کتاب کے نزدیک ’’ایلیاء‘‘یعنی بیت المقدس کا بڑا تقدس تھااوراسے خاص مذہبی حیثیت حاصل تھی، لہٰذااس عظیم فتح کے موقع پر بطورِشکر عبادت کی غرض سے قیصران دنوںاپنے دارالحکومت ’’قُسطَنطِینیہ‘‘سے ’’ایلیاء‘‘یعنی بیت المقدس آیاہواتھا، چنانچہ رسول اللہﷺکے قاصدکوجب یہ خبرملی تووہ بھی قسطنطینیہ کی بجائے ایلیاء پہنچ گئے اورنامۂ مبارک قیصرکے حوالے کیا۔ قیصرنے رسول اللہﷺکانامۂ مبارک پڑھا، اورپھرغوروفکرکے بعداس نے اس بارے