سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
شخص کسی ایک کی جان بچالے اس نے گویاتمام لوگوں کوزندہ کردیا…) یعنی قرآن کریم میں اس ارشادِربانی کی روسے ایک انسان کاناحق خون کردینے والاشخص تمام انسانیت کاقاتل ہے، جبکہ جس کسی نے محض کسی ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویاتمام انسانیت کوبچالیا… گویاوہ تمام انسانیت کامحسن ہے اورنجات دہندہ ہے…! اسی طرح قرآن کریم میں اللہ کے جلیل القدرپیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جس مشہورومعروف اورانتہائی جامع ومفصل دعاء کاتذکرہ ہے ٗاس میں یہی کیفیت نظرآتی ہے کہ انہوں نے اس دعاء میں سب سے پہلے اللہ سے امن وامان کی نعمت کاسوال کیا، جیساکہ ارشادِربانی ہے:{وَ اِذ قَالَ اِبرَاھِیمُ رَبِّ اجْعَل ھٰذَا البَلَدَ آمِناً} (۱) ترجمہ:(اورجب ابراہیم نے کہاکہ :اے میرے رب! توبنادے اس شہرکوامن کی جگہ) اورپھراس کے بعدآگے چل کراسی دعاء میں اللہ سے اپنے لئے نیزاپنی ذریت اوراہل وعیال کیلئے عقیدہ وایمان کی سلامتی کاسوال کیا، اس کے بعدنمازکی توفیق کاسوال کیا… اورپھررزق کی فراوانی اورخوشحالی مانگی۔ لہٰذااس دعاء میں جوترتیب واردہوئی ہے ٗ اس سے یہی بات واضح وثابت ہوتی ہے کہ امن وامان اورسلامتی وعافیت اس قدراہم چیز ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے اللہ سے اسی چیزکاسوال کیا… اوراس کے بعدباقی چیزیں مانگیں… یقیناجب امن وامان کی نعمت نصیب ہوگی ٗانسان کی جان ومال محفوظ ہوگی ٗتبھی توانسان اللہ کی عبادت کا فریضہ انجام دینے کے قابل ہوسکے گا، جان ومال محفوظ ہوگی تبھی توانسان مسجدجاسکے گا، اورتبھی حجِ بیت اللہ کیلئے سفرممکن ہوگا،اور تبھی توانسان اپنے لئے اوراپنے اہل وعیال کیلئے ------------------------------ (۱) ابراہیم [۳۵]