سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اسے خبردارکرتے ہوئے یہ تحریرکیاگیاتھاکہ ’’ہم یہ بات ہرگزبرداشت نہیں کرسکتے کہ محمد(ﷺ) اوران کے ساتھی ہمارے شہرمکہ سے نکلنے کے بعداب تمہارے شہرمدینہ میں چین وسکون کی زندگی بسرکریں اورپھلتے پھولتے رہیں… لہٰذاتم سے ہمارایہ پرزورمطالبہ ہے کہ تم ان مسلمانوں کوجلدازجلداپنے شہرسے نکال باہرکرو…اوراگرتم نے ہماری اس ہدایت پرعمل نہ کیاتویادرکھو…ہم بہت جلدتمہارے شہرپرتباہ کن حملہ کریں گے… اور تب صرف مسلمانوں کوہی نہیں… ان کے ساتھ ساتھ تم سب کوبھی ہم مدینہ سے نکال باہرکریں گے‘‘۔ اس خط میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے مدینہ میں موجودمنافقین ویہودکوبظاہراگرچہ ’’دھمکی‘‘ دی گئی تھی… لیکن درحقیقت یہ ان کیلئے ’’دھمکی‘‘نہیں …بلکہ بہت بڑی خوشخبری تھی…کیونکہ وہ رسول اللہﷺ ودیگرمسلمانوں کی مدینہ آمدسے انتہائی نالاں اورناخوش تھے، اورچاہتے تھے کہ کسی طرح یہ لوگ مدینہ سے نکل جائیں… اورپھرہمارے وہی پرانے دن لوٹ آئیں…اوراس مقصدکیلئے ان کی دلی خواہش تھی کہ کاش انہیں کسی بڑی قوت کی پشت پناہی حاصل ہوسکے۔ لہٰذااب مشرکینِ مکہ کی طرف سے جب انہیں یہ دھمکی موصول ہوئی توانہوں نے اسے دھمکی کی بجائے اپنے لئے بہت بڑی خوشخبری سمجھا…اوراب مسلمانوں کے خلاف یہ اندرونی وشمن اوربیرونی دشمن دونوں متحداوریکجاہوگئے،اورپھران بدلے ہوئے حالات میںمسلسل ایسے ٹھوس ثبوت ٗپے درپے شواہدودلائل اورآثاروقرائن نظرآتے رہے جن کی وجہ سے رسول اللہﷺکومکمل یقین ہوگیاکہ یہ اندرونی وبیرونی دشمن مل کرکسی بھی وقت مسلمانوں کیلئے کوئی بڑی مشکل پیداکرسکتے ہیں، نیزیہ کہ اس گٹھ جوڑکے نتیجے میں مشرکینِ مکہ کسی بھی