سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ہمدردی وایثارکے ایسے نمونے پیش کئے کہ تاریخِ عالَم میں اس کی مثال نہیں مل سکے گی…!! ٭…انصارکے دلوں میں اپنے مہاجربھائیوں کیلئے ایثارکایہ بے مثال جذبہ اپنی جگہ… لیکن حقیقت کی دنیامیں محض جذبات سے کام نہیں چلتا…محض جذبات سے نہ کسی کاپیٹ بھرسکتاہے… اورنہ ہی گھروں کے چولھے جل سکتے ہیں… اس چیزکیلئے توحقیقت کومدِنظررکھناپڑتاہے… اوراُس وقت حقیقت یہی تھی کہ انصارِمدینہ بہت زیادہ خوش حال نہیں تھے… ان کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ اُن پرمہاجرین کااضافی بوجھ بھی ڈال دیاجائے… یہی وہ حقیقت تھی جسے مدِنظررکھتے ہوئے اُس موقع پررسول اللہﷺ نے انصارپربہت زیادہ بوجھ نہیں ڈالا… بلکہ بہت ہی ہلکی پھلکی سی ذمے داری ہرانصاری کوسونپی… یعنی ہرایک انصاری کے ذمے اپنے صرف ایک مہاجربھائی کی ذمے داری ۔ اوریوں آپؐنے مہاجرین وانصارکے درمیان تاریخی ’’رشتۂ مؤاخاۃ‘‘قائم فرمایا،یعنی ایک ایک انصاری کوایک ایک مہاجرکابھائی بنادیا… یوں آپؐ نے مہاجرین وانصارکوہمیشہ کیلئے اس بے مثال اُخوت کے رشتے میں پرودیا۔ ٭…اس تاریخی موقع پرجہاں انصارکااپنے مہاجربھائیوں کیلئے جذبۂ ہمدردی وایثار قابلِ ذکرہے … وہیں مہاجرین کایہ اعلیٰ ترین اخلاق ٗ ان کے دلوں میں یہ احساس ٗ اوران کایہ جذبہ بھی آبِ زرسے لکھے جانے کے قابل ہے کہ انہوں نے انصارکی اس خوش اخلاقی اورشرافت سے کوئی ناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی کہ بس ہمیشہ کیلئے’’مفت خورے‘‘ بن کر…اورانصارپربارِ گراں بن کر… اسی طرح انہی کے گھروں میںبیٹھے رہتے… ایساکرنے کی بجائے حضرات مہاجرین نے ’’مؤاخاۃ‘‘کے اس رشتے میں بندھنے کے بعد