سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
الأُمِّیینَسَبِیلٌ} (۱) ترجمہ:(… یہ اس لئے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھاہے کہ ہم پران جاہلوں کے حق کاکوئی گناہ نہیں ہے) یعنی یہ لوگ پیدائشی طورپراپنایہ جائزحق سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ دوسروں سے بہت اعلیٰ وافضل ہیں … اللہ کے بیٹے اوراس کے لاڈلے ہیں… جبکہ یہ مقامی افرادتوبس جاہل ٗ گنوار… اورحقیروکمترقسم کے لوگ ہیں… لہٰذاہم اگراپنی عیاری ومکاری کے ذریعے ان کاحق دبالیتے ہیں … اورانہیں لوٹ لیتے ہیں … تواس میں قطعاًکوئی قباحت نہیں… کیونکہ یہ توہیں ہی اسی قابل کہ ہم انہیں لوٹاہی کریں… اُن دنوں وہاں مدینہ میں ان یہودیوں کے دوپسندیدہ ترین مشاغل تھے،جادوٹونہ اورتجارت۔ جادوٹونے میں یہ بہت پہنچے ہوئے تھے، بس یہی ان کاشب وروزکامشغلہ تھا… حتیٰ کہ خودرسول اللہﷺ پربھی انہوں نے جادوکیا۔ اسی طرح تجارت میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی،اوریہ اس حقیقت سے خوب آگاہ تھے کہ کسی بھی معاشرے پراپناتسلط قائم رکھنے کیلئے معاشی برتری بہت ضروری ہے… جائزوناجائزہرقسم کے ہتھکنڈے اپناکرکسی بھی صورت بس اپنی اجارہ داری اورمعاشی برتری قائم رکھی جائے… دوسروں کوبہرصورت اپنامحتاج بناکررکھاجائے… کوئی کتناہی ہیبت ناک ٗ خونخوار ٗ اورطاقتورشیرہی کیوں نہو… لیکن اگرچنددن کیلئے اس کادانہ پانی بندکردیاجائے… اوراسے بھوکاپیاسارکھاجائے… تووہ خودبخودقابومیں آجائے گا… یہ ان کااندازِفکرتھا،اورپھراسی کے مطابق ان کاطرزِعمل بھی تھا،لہٰذاتجارت اورمعیشت پر ------------------------------ (۱)آل عمران [۷۵]