(قادیانی) نے ایک ٹریکٹ بعنوان ’’قہری نشان‘‘ ہمارے ٹریکٹ کے جواب میں لکھا ہے جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میں نے جب ان کو پڑھا تو میرے دل کو اس سے سخت صدمہ ہوا، اور میرے دل سے اپنے رب کے حضور ایک فریاد اٹھی۔‘‘ خدا گواہ ہے کہ اس ٹریکٹ سے ہماری غرض وغایت جناب صاحبزادہ صاحب کی دل شکنی یا دل آزاری ہرگز ہرگز نہ تھی اور یہ تو مسلمان کا شیوہ ہی نہیں کہ بلاوجہ کسی کا دل دکھائے منصف مزاج ناظرین ہمارے ٹریکٹ کو پڑھ کر فیصلہ دے سکتے ہیں کہ ہم نے جناب صاحبزادہ صاحب کی شان میں کوئی نامناسب لفظ استعمال نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ہمارا روئے سخن اس ٹریکٹ میں صاحبزادہ صاحب کی طرف تھا ہی نہیں بلکہ ہم نے تو جناب صاحبزادہ صاحب کی پالیسی کو ایک طرح بنظر استحسان دیکھا ہے۔ ہاں البتہ ہم نے مولوی محمد علی ایم اے اور خواجہ کمال الدین کی پالسی کو بنگاہ حقارت دیکھ کر چند ایک پھبتیاں اڑائی ہیں۔
در اصل مولوی محمد علی ہی کے ٹریکٹ کے جواب میں ہمارا ٹریکٹ لکھا گیا اور انہی کی طرف ہمارا روئے سخن تھا اور ہم انہیں کے جواب کے منتظر تھے۔ مگر انہوں نے آج تک کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ نے تو خواہ مخواہ ہمارے جواب میں ٹریکٹ لکھ کر ہمیں مد مقابل بنالیا۔ افسوس ہے کہ ہم تو اپنے ٹریکٹ میں آپ کی پالیسی کی تعریف لکھیں اور آپ اپنے ٹریکٹ میں گالیاں دیں اور ہمارے لئے بددعائیں کریں۔ ہم ان گالیوں کے جواب میں صرف اسی قدر کہنا چاہتے ہیں کہ خدا آپ کو نیکی کی ہدایت دے۔
جناب صاحبزادہ صاحب آپ کے ٹریکٹ کا جواب لکھنے کی ہمیں چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ جس کسی نے بھی آپ کا ٹریکٹ پڑھا اس نے اس پر ایسا مضحکہ انگیز تمسخر اڑایا کہ توبہ ہی بھلی۔ آپ کے غیر معقول جوابات پر انہوں نے ایسی ایسی پھتسیاں اڑائیں کہ میں انہیں قلمبند کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے خاموش رہنا مناسب سمجھا مگر پھر اس خیال سے کہ شائد صاحبزادہ صاحب یہ خیال نہ فرمائیں کہ آپ کے ٹریکٹ کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں اس لئے مجبوراً آپ کے ٹریکٹ کا جواب لکھا جاتا ہے۔
جناب صاحبزادہ صاحب ہم ضدی، متعصب اور ہٹ دھرم نہیں کہ آپ کی کسی صحیح بات کو تسلیم نہ کریں۔ بے شک صفحہ ۹۰ ولاحوالہ زلزلۃ اوّل کے متعلق ہیں جو کہ سہواً لکھا گیا ہے۔ لیکن ﷲ یہ تو فرمائیے کہ کیا صفحات ۹۲، ۹۳، ۹۶، ۹۷، ۹۹ کی مختلف عبارتیں اور ص۹۷ والا نوٹ بھی زلزلہ اول ہی کے متعلق ہے۔ آخر یہ حوالے تو زلزلہ آئندہ ہی کے متعلق ہیں۔ اگر ایک نہیں تو یہ سہی یہ چھ