گویا آپ کا وجود دنیا کے لئے سراسر وبال تھا۔ زندگی میں خلق خدا آپ کی بد گوئیوں اور سخت کلامیوںسے پریشان رہی۔ کئی سال سے آپ فوت بھی ہوچکے ہیں لیکن دنیا سے یہ نحوست پھر بھی دور نہ ہوئی۔ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ مرزا قادیانی کے وہ صاف اور کھلے الہام اور پیش گوئیاں جو اپنی حریف مولوی ثناء اﷲ امرتسری یا ڈاکٹر عبدالحکیم کی موت کی نسبت کی گئی تھیں۔ کیوں پوری نہ ہوئیں؟ اور نہ محمدی بیگم کے نکاح کی مؤکد پیش گوئی پوری ہوسکی اور مرزا قادیانی کے ملہم نے آپ کی یہاں تک بھی یاوری نہ کی کہ آپ کو موت کے وقت ہی پہلے اطلاع مل جاتی کہ آپ اپنے دار الامان اور تخت گاہ سے باہر لاہور میں بحالت غربت ومسافرت جان دے کر نقصان مایہ وشماتت ہمسایہ کی رسوائی حاصل نہ کرتے اور نہ آپ کی نعش مال ٹرین پر لاد کر قادیان پہنچائی جاتی۔ پھر ایسے گول مول الہامات کو توڑ مروڑ کر خواہ مخواہ کسی واقعہ سے منطبق کرنا مرزائی جماعت کے لئے باعث شرم ہونا چاہئے۔ لیکن :
شرم چا است کہ پیش مرداں بیائد
جب کوئی نیا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے مرزائی صاحبان ’’نشان نشان‘‘ کی صدا سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت کا انکشاف ہونے پر یہ صداقت کا نشان نہیں بلکہ ذلت ورسوائی کا نشان ثابت ہوتا ہے۔ حال میں حکومت روس میں انقلاب ہواہے اور زارروس تخت سے دست بردار ہوگیا۔ یہ واقعہ واقعات عالم میں کوئی نیا نہیں بلکہ ایسے انقلاب ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔بہت تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ عبدالحمید ثانی اسی طرح تخت سے معزول کردئیے گئے تھے۔ زارروس کی معزولی کا معاملہ اس سے بڑھ کر کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بالخصوص جبکہ حال کے جنگ عظیم نے حالات ایسے پیدا کردئیے ہیں کہ حکومتوں میں تغیرات وقوع میں آرہے ہیں۔ کہیں وزارت کا تغیر ہوتا ہے کہیں دیگر اراکین میں ردوبدل ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو بھی مرزا قادیانی کا نشان قرار دیا گیا ہے۔مرزائی اخبارات پیغامی ومحمودی اس بارہ میں ہم آہنگ ہیں کہ زارروس کی معزولی کا معاملہ مرزا قادیانی کی صداقت کا عظیم الشان نشان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرزا قادیانی نے اپریل ۱۹۰۵ء میں چند اشعار لکھے تھے۔ جن میں زمانۂ حال کے جنگ عظیم کی پیش گوئی کی گئی تھی اور اس میں ایک مصرع یہ بھی ہے۔
زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار(براہین حصہ پنجم ص۱۲۰، خزائن ج۲۱ ص۱۵۲)
مرزائی کہتے ہیں کہ بس مرزا قادیانی کی صداقت پر مہر ہوگئی چونکہ عام لوگ اصل حالات سے آگاہ نہیں ہوتے۔ اس لئے اگرچہ مرزا قادیانی کی ملہمیت کی حقیقت سے تو واقف