نسبت ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے اوپر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدے پر قائم نہ رہنے دیا اور صحیح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
نوٹ… دیکھو مرزا قادیانی کتنی دلیری کے ساتھ کہتا ہے۔ (مگر بعد میں جو اللہ تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے اوپر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا) تو وہ عقیدہ کیا تھا ملاحظہ ہو۔(اوائل میں میرا یہ عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے) تو جب مرزا اس عقیدہ سے منکر ہوا تو اس بناء پرمرزا کے قول کے رو سے وہ تین باتوں کا قائل ہوا اول یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی نہ تھے۔ دوم یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بزرگ بندوں میں سے نہ تھے۔ سوم یہ کہ مرزا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہتر تھا۔ چنانچہ مرزا کا شعر بھی ہے۔
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑ دو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
اے آسمان تو کیوں نہ گرا اور اے زمین تو کیوں نہ پھٹی ایک ایسے بدبخت پر جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کی شان مبارک میں گستاخی کرنے سے ذرہ بھر بھی پرہیز نہیں کرتا۔ لعنۃ اﷲ علیہ
(دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰) ’’قادیان کو اس کی (طاعون) خوفناک تباہی سے بچائے گا۔ کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘
مذکورہ حوالہ جات سے آپ کو بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا کہ مرزا مدعی نبوت ہوا تھا اس میں شک نہیں کہ مرزے نے بعض بعض جگہ کہا ہے کہ میں نبی نہیں ہوں اور میرا منکر کافر نہیں ہے جیسے لاہوری پارٹی والے قادیانی کہتے ہیں مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ مخالف اور متضاد باتیں جو مرزا بکا ہے اس میں مراق یعنی پاگل پنے کے جلوے تھے آپ سے ملا تو کچھ بکا اور کچھ سے ملا تو کچھ بکا۔
معشوق ما بشیوہ ہر کس برابر است
باما شراب خورد او بہ زاہد نماز کرد
اس لئے یہ کوئی قابل اعتبار بات نہیں کہ موضع دلیل میں پیش کی جائے۔