رسالہ شائع کیا جاتا ہے، جس میں ان آیات کے صحیح معنے اور مطلب کو واضح کردیا گیا ہے۔ جن سے وفات مسیح ثابت کرنے کی فضول کوشش کی جاتی ہے۔ نیز مرزائیوں کی تاویلات باطلہ کا پردہ فاش کردیا گیا ہے۔ ان ارید الا الاصلاح مااستطعت وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب
ایک ضمنی آیت
مولف ظہور امام نے ص۳ میں آسمانی اور زمینی موجودہ بلائوں اور مصیبتوں کو مرزا غلام احمد کی رسالت وامامت کے نہ ماننے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس آیت کو پیش کیا ہے: ’’وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا (بنی اسرائیل:۱۶)‘‘حالانکہ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ پہلی امتوں (ازنوح علیہ السلام تا مسیح علیہ السلام) کی بابت اپنی گزشتہ عادت آنحضرتﷺ سے بیان فرما رہا ہے کہ نہیں تھے ہم عذاب کرتے (کسی منکر ومکذب کو) یہاں تک کہ ہم بھیج دیتے ایک رسول کو ’’جیسا کہ اس کے ایک آیت بعد فرمایا: ’’وکم اہلکنا من القرون من بعد نوح (بنی اسرائیل:۱۷)‘‘ یعنی کتنی قرنیں ہلاک کردیں ہم نے نو ح کے بعد۔ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کا قول وما کنا معذبین…الخ پہلی امتوں سے متعلق ہے۔ جن کی ابتداء زمانہ نوح پیغمبر سے ہوتی ہے۔ امت محمدیہ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ پہلی امتوں میں رسول خاص قوم کے لئے آتے تھے۔ جب محمد رسول اﷲﷺ تمام دنیا کے لئے رسول ہوکر تشریف لائے تو اﷲ تعالیٰ نے اپنا جدید قانون یوں بیان فرمایا: ’’وما کان اﷲ معذبہم وہم یستغفرون (انفال:۳۳)‘‘ یعنی اور نہیں اﷲ عذاب کرے گاان (امت محمدیہ) کو اس حال میں کہ وہ استغفار کرتے رہیں گے۔ پس اب جبکہ لوگ استغفار چھوڑ دیں گے، اپنے اﷲ سے منہ موڑ لیں گے۔ آسمانی اور زمینی بلائیں ان پر محیط ہوجائیں گی۔ پس یہ غلط ہے کہ مرزا قادیانی کا انکار سبب بلاء ہے اس لئے کہ خاتم النّبیین کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ جیسا کہ پہلے ٹریکٹوں میں اس کو مفصل لکھا جاچکا ہے۔
مرزائیوں کی بات میں اگر وہ ذرہ برابر صداقت ہو تو ان کو بتانا چاہئے کہ تیرہ صدیوں میں کون سی صدی آسمانی یا زمینی بلائوں سے خالی گزری ہے؟ اگر کوئی بھی خالی نہیں گزری جیسا کہ تاریخی شہادتیں بکثرت موجود ہیں‘ تو ان کو پھر بتانا ہوگا کہ آنحضرتﷺ اور مرزا قادیانی کے