جھوٹے ہی کیوں نہ ثابت ہوں۔
بلا سے کوئی اور ان کی بدنما ہوجائے
کسی طرح تو مٹ جائے ولولہ دل کا
مجاہد صاحب کی دلیل ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: ’’پورا ہونا ضروری ہوتا تو خدا کیوں فرماتا: ’’لا یخلف اﷲ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (روم:۶)‘‘کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ گویا مجاہد صاحب یہ سمجھے کہ اس آیت سے ثابت ہوگیا کہ پیغمبروں کی پیش گوئی حرف بحرف پوری نہیں ہوتی۔ نازم برین فہم، پوری آیت یوں ہے: ’’ینصر من یشاء وہو العزیز الرحیم وعد اﷲ لا یخلف اﷲ وعدہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون‘ یعلمون ظاہراً من الحیٰوۃ الدنیا وہم عن الآخرۃ ہم غافلون (روم:۷)‘‘یعنی مدد دیتا ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اور وہی غلبہ والارحم والا ہے۔ وعدہ ہے اللہ کا (مدد کا) اللہ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کرتا۔ لیکن اکثر لوگ (مشرکین) کو (اللہ کے وعدوں کا) علم نہیں ان کا تو صرف دنیا کی زندگی کی ظاہر (معمولی) باتوں کا علم ہے اور وہ آخرت (کی باتوں) سے غافل (بے خبر) ہیں مشرکین مکہ نے کہا تھا کہ جس طرح فارس والے امی ہیں اور رومی اہل کتاب پر غالب آئے ہم بھی امی ہیں اور محمدی اہل قرآن پر غالب آئیں گے۔ اللہ نے ان کی تردید فرمائی کہ ۹ برس کے اندر اہل روم اہل فارس پر غالب ہوں گے۔ اور مسلمان مکہ والوں پر (بدرمیں) غالب ہوں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہوکر رہے گا (چنانچہ پورا ہوا) لیکن مشرکین مکہ نہیں جانتے۔ کہ شکست خوردہ رومی کیونکر غالب اہل فارس پر فتح پائیں گے اور بے سروسامان قلیل مسلمان کیونکہ سارے مکہ والوں پر فتح حاصل کریں گے۔ وہ تو دنیوی سازوسامان ااور کثرت تعداد پر غلبہ کو منحصر جانتے ہیں۔ ان کو کیا خبر کہ
اوست سلطان ہرچہ خواہد آں کند
عالمے رادردمے ویراں کند
پس آیت تو کچھ کہہ رہی ہے اور مجاہد صاحب کچھ الاپ رہے ہیں۔ (فحوائے من چہ گویم وطنبورہ من چہ سراید) سبحان اﷲ!
دوسری دلیل مجاہد صاحب نے اس سے بھی عجیب دی ہے لکھا ہے کہ ’’یعقوب کی پیش گوئی عسیٰ اﷲ ان یاتینی بہم جمیعا (یوسف:۸۳)‘‘… وہ تینوں نہ آئے الٹا حضرت