البتہ دونوں تحریروں میں تعارض ہوگا پس بقاعدہ اذا تعارضا تساقطا دونوں قول مرزا کے ساقط لیجئے اب بقول آپ کے ’’پس فیصلہ ہوگیا۔‘‘(ص۲۲) یہ عقیدہ کی خرابی کہیں تو کیسے بنی؟ غیر کو مجرم بناتے تھے۔ یہ گت ان کی بنی۔
توہین انبیاء کرام علیہم السلام
مجاہد صاحب نے بعنوان ’’ایک عذرنامعقول کی حقیقت‘‘ ایک نہایت ہی نامعقول بات تحریر کی ہے۔ جو سراسر موجب اہانت پیغمبران علیہم السلام ہے۔‘‘ لکھتے ہیں۔ انبیاء کو اپنی وحی کے معنے سمجھنے میں غلطی لگتی رہی ہے… آنحضرتﷺ کو بھی بعض وقت اجتہادی غلطی فہم معانی میں ہوئی۔ جیسے صلح حدیبیہ واقعہ‘ جائے ہجرت کا واقعہ… نوح کا اپنے بیٹے کو اہل سمجھنا… یونس کا نہ سمجھنا اور خدا پر ناراض ہونا۔‘‘ (ص۴)
معاذ اﷲ معاذ اﷲ! پیغمبر اور خدا پر ناراض ہو؟ ’’اذذہب مغاضباً (انبیائ:۸۷)‘‘ کے معنے اپنی طرف سے ناراض ہوکر جانا ہے، نہ خدا سے۔ نوح کا بیٹا کسی غیر کے نطفہ سے نہ تھا۔ انہیں کا بیٹا تھا اور انہیں کے اہل سے تھا۔ ’’لیس من اہلک (ہود:۴۶)‘‘ میں مطلق اہل سے ہونے کی نفی نہیں ہے۔ ’’انہ عمل غیر صالح‘‘ کی قید نے یہ بتایا کہ وہ ان لوگوں سے نہیں ہے جو علم باری میں نجات پانے والے ہیں۔ پس نوح کو علم باری کا کیا پتہ؟ اس لاعلمی کی وجہ سے انہوں نے بطور استعداد واستکثاف حال ولد غریق کے استفسار فرمایا نہ کہ وحی کے معنی سمجھنے میں غلطی کھائی وثم بینہما۔ واقعہ حدیبیہ میں آنحضرتﷺ سے کوئی بھی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ جائے ہجرت کا دیکھنا خواب کا واقعہ ہے۔
مرزا قادیانی نے خواب میں توفی کے معنے نہیں کئے ہیں۔ بلکہ جاگنے کی حالت میں تالیف براہین کے وقت ’’پوری نعمت دینے۔‘‘ کا ترجمہ کیا ہے اور یہ لفظ قرآنی مرزا قادیانی پر نہیں اترا تھا۔ بلکہ محمد رسول اﷲﷺ پر نازل ہوا تھا۔ پس وحی محمدی کے سمجھنے میں مرزا قادیانی کو کیونکر غلطی لگی؟ سوا اس کے کہ مان لیا جائے کہ مرزا قادیانی قرآن یا عربی نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ مرزا قادیانی نے مولوی اصغر علی روحی لاہوری کے مقابلہ پر کہہ دیا تھا کہ ’’میں عربی کا عالم نہیں ہوں۔‘‘(الحکم ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء ص۵) لیکن بقول مجاہد صاحب ’’مرتا کیا نہ کرتا۔‘‘(ص۲۳) انہوں نے مرزا قادیانی کے دامن کو پاک کرنے کے لئے انبیاء کرام کے مقدس دامنوں کو آلودہ کردیا اور توہین انبیاء کرام کے مرتکب ہوئے اور اس لئے کہ ان کے دلوں میں انبیاء عظام کی کوئی عزت ووقعت نہیں ہے جیسا کہ اوپر لکھ آئے ہیں۔