M
الحمد اﷲ الذی قال فی کتابہ المبین، قل صدق اﷲ فاتبعوا ملۃ ابراہیم حنیفا وما کان من المشرکین۔ والصلوٰۃ والسلام علی محمدن الصادق المصدوق الذی جاء بالصدق وصدق المرسلین۔ و علیٰ الہ وصحبہ والذین صدقوا انبیاء اﷲ ونصروا دین نبیہم حتی اتا ہمالیقین۔ وقاتلوا الذین کذبوا علیٰ اﷲ وبرزوہم فی حلل الانبیاء بعد خاتم النّبیین وعلیٰ اولیائہ وسائر اتباعہ اجمعین۔
مسلمانو! ابو البشر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرنوں بعد جبکہ بنو آدم میں مسئلہ توحید، اختلافی مسئلہ بن گیا اور لوگوں کو رفتہ رفتہ توحید سے نفرت اور شرک واوہام پرستی سے الفت پیدا ہونے لگی تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے سچے رسولوں کو بھیجنا شروع کیا تاکہ ان کے ذریعے سے نور حق واضح ہو اور ظلمت باطل کا نور جیسا کہ سورہ یونس میں ارشاد ہے: ’’وما کان الناس الامۃ واحدۃ فاختلفوا (یونس:۱۹)‘‘ اور سورہ بقرہ میں فرمایا: ’’کان الناس امۃ واحدۃ بعث اﷲ النّبیین مبشرین ومنذرین وانزل معہم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفو فیہ فیہ (بقرہ:۲۱۳)‘‘ یعنی سب لوگ ایک دین (توحید) پر تھے پھر انہوں نے اختلاف کیا تو اﷲ تعالیٰ نے نبیوں کو خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا اور ان پر سچی کتاب اتاری تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردے۔
انبیاء کرام نے تشریف لاکر تمام اختلافات دور کئے، راہ حق پر گامزن ہونے والوں کو وعدہ جات کی بشارت سنائی اور باطل پرستوں کو وعید عذاب سے ڈرایا۔ اپنی صداقت کے لئے اﷲ کے حکم سے معجزے دکھائے، پیش گوئیاں کیں جن کو منکرین نے بھی حرف بحرف پوری ہوتے ہوئے دیکھا۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، نہ ماننا تھا نہ مانے۔ جائتہم رسلہم بالبینات وما کانوا لیومنوا (یونس:۱۳) یعنی پیغمبر دلائل ومعجزات لائے پر لوگ ایمان نہ لائے بلکہ ان کی صداقت اور رسالت کو اپنے خود ساختہ معیاروں پر جانچنا چاہا۔ کسی نے کہا کہ :
۱… رسول کو جنس بشر سے نہیں ہونا چاہئے۔ قرآن مجید میں ان کا قول یوں منقول ہوا۔ ما ہذا الا بشر مثلکم یا کل مماتاکلون، و یشرب مما تشربون، ولئن اطعتم