باقی نہیں رہتی۔ واقعہ شہادت دیتا ہے کہ مرزا قادیانی کی دعا قبول ہوگئی وہو المراد۔
۴… مرزا قادیانی کی ڈائری جو اخبار بدر۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں مرقوم ہے حضرت مرزا قادیانی نے کہا : ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ در اصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے ایک دفعہ ہماری توجہ اس طرح ہوئی اور رات کو توجہ اس کی طرف تھی اور رات کو الہام ہوا۔ اجیب دعوۃ الداع صوفیاء کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہے۔ باقی سب اس کی شاخیں (اخبار بدر۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ) یہ عبارت بتا رہی ہے کہ مرزا قادیانی نے جو دعا آخری فیصلہ کی صورت میں شائع کی تھی وہ خدا کے وعدہ کے مطابق قبول شدہ تھی۔ لہٰذا دعائے مذکور کی قبولیت میں مطلق شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دفع دخل
بعض مرزائیوں نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ڈائری مذکور ۱۵؍اپریل والے اشتہار سے پہلے کی ہے یعنی ۱۴؍اپریل ۱۹۰۷ء وقت عصر کی ہے۔ لہٰذا یہ ڈائری اس اشتہار کی بابت نہیں ہوسکتی۔ یہ مرزائیوں کا محض مغالطہ اور دفع الوقتی ہے اس لئے کہ ڈائری مذکور اگر واقعی ۱۴؍اپریل کی ہوتی تو ۱۸؍اپریل کے اخبار بدر میں شائع ہوجاتی نہ ۲۵؍اپریل کے اخبارمیں، علاوہ ازیں دعا والے اشتہار پر ۱۵؍اپریل کی تاریخ مضمون لکھنے کی تاریخ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مضمون یقینا سے پیشتر لکھا جاچکا تھا۔ جس پر ڈائری کا فقرہ لکھا گیا شاہد عدل ہے۔ علاوہ بریں ڈائری اور اشتہار دونوں میں دعا کا ہی ذکر ہے اور کسی مضمون میں جو مولانا ثناء اﷲ صاحب کے حق میں مرزا قادیانی کے قلم سے پیشتر نکل چکا تھا کسی دعا کا ذکر نہیں ہے۔ پس مطلع بالکل صاف ہے کہ ڈائری اشتہار مذکورہ سے ہی متعلق ہے لا غیر۔
۵… مرزا قادیانی نے اپنے اشتہار مذکور میں لکھا ہے کہ ’’میں نے آپ سے بہت دکھ اٹھایا اور صبر کرنا رہا۔‘‘ اور (حقیقت الوحی ص۱۸، خزائن ج۲۲ ص۲۰) پر لکھا ہے کہ: ’’جب ان (مقبولین) کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدت سے بے قراری ہوتی ہے اور اس شدید بے قراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا ان کی سنتا ہے اور اس وقت ان کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘
پس شکل اس کی یوں بنی، مرزا قادیانی نے مولانا ثناء اﷲ صاحب سے بہت دکھ اٹھایا اور دکھیارے کی خدا سن لیتا ہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی کی دعا خدا نے سن لی۔ کیسا صاف نتیجہ ہے؟