ایک روایت اور سنئے۔ عمرؓ ایک بار بارگاہ رسالت میں آئے اور کہا: ’’اے اللہ کے پیامبر آج میں اپنے ایک قریظی بھائی سے ملا، انہوں نے توراۃ سے مجھے کچھ حکمت ودانائی کی باتیں لکھ کر دی ہیں۔ اذن ہو تو پیش کروں۔‘‘ سنتے ہی اللہ کے پیامبر کا چہرہ غصہ میں تتما اٹھا : فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے دست قدرت میں محمدؐ کی جان ہے آج تم میں (اللہ کے نبی) موسیٰ آجائیں اور تم ان کے پیرو بن جائو، تو بھی تم گمراہ ہو جائو گے۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’انکم حظی من الامم و انا حظکم من النّبیین (رواہ احمد فی مسندہ)‘‘ کذا قال السیوطی فی تفسیرہ: {اے عمر! یقین کرو امتوں میں سے یہ امت یعنی تم میرے حصہ میں آئے ہو اور نبیوں میں سے میں تمہارے حصہ میں آیا ہوں۔}
قارئین کرام! آپ نے سن لیں تصریحات ’’قائد الانبیاء خاتم المرسلینﷺ کی؟ اب بھی کوئی شبہ آیہ کریمہ: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین‘‘ کے صحیح معنی میں باقی ہے؟ مسلمانوں کے لئے تو دم مارنے کی گنجائش نہیں۔
اللہ اللہ، اس صادق مصدوق کی حقیقت بین نگاہیں بعد کے پر آشوب زمانوں کے فتنے گویا برائی العین دیکھ رہی تھیں۔! ختم نبوت کی حقیقت باہرہ کس کس طرح عریاں و بے نقاب فرمائی ہے۔ ’’صلی اﷲ علی نبیہ محمد خاتم الانبیاء وآخر المرسلین الذی لا رسول بعدہ ولا نبی وبارک وسلم‘‘
قارئین کرام! حدیثین اس باب میں حد تواتر کو پہنچ چکی ہیں، اور امت محمدیہ کا عہد نبوت سے لے کر آج تک، ہر عہد میں اس بات پر قطعی اجماع رہا ہے کہ نبوت عامہ محمدیہ کے بعد اب نبوۃ ورسالت کا دروازہ بند ہے اور اس کا منکر بلا ریب ملحد و بے دین ہے۔
مگر دیکھو مرزا غلام احمد نے کس کس طرح قرآن وحدیث کی تکذیب کی ہے کس کس طرح کی جعل وتحریف کا دام بچھایا ہے، کہیں ظلی وبروزی نبی بنے ہیں‘ کہیں حقیقت محمدیہ کا ظہور بنے ہیں۔ کہیں خود محمد رسول اﷲﷺ بنے ہیں۔ کہیں ان سے بھی بڑھ کر ہونے کا دعویٰ ہے اور بالآخر ایک مستقل اور صاحب کتاب وشریعت نبی ورسول ہونے کا اعلان ہوگیا؟
دیکھو پیر قادیان کی الحاد طرازیاں دیکھو۔
آنچہ دادست ہر نبی راجام
داد آن جام را مرابہ تمام