پر مہر قبول کرائی! مرزا قادیانی نے جو کچھ اپنی اس کتاب میں لکھا ہے آنحضرتﷺ نے اسے بنگاہ قبول دیکھا ہے۔
یہ کیونکر ممکن ہے کہ جو کتاب مرزا قادیانی نے بایمائے الٰہی لکھی ہو اس میں ایسے ’’مشرکانہ عقائد‘‘ رہ جائیں اور ادھر سے تنبیہ نہ ہو۔ کیونکر باور کرلیا جائے کہ جس کتاب کو آنحضرتﷺ نے ملاحظہ فرما کر سند قبول عطا کی ہو، اس میں ایسے عامیانہ ومشرکانہ عقائد بھی موجود ہیں۔ ایام الصلح کی نسبت بھی کوئی قادیانی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ عہد نبوت مرزا سے پہلے کی تصنیف ہے۔
ہاں! کوئی مرزائی بوکھلاہٹ میں یہ بھی نہ چلا اٹھے کہ یہ ’’عقائد اب منسوخ‘‘ ہیں ورنہ فضیلت مآبی کی ساری شیخی کرکری کردی جائے گی۔ عقائد میں اور نسخ؟
مگر قارئین کرام! ’’پیر قادیان‘‘ کے ان پرستاروں کا کیا ٹھکانا ہے؟ ان کے پیر جناب مرزا قادیانی مسیح علیہ السلام کی زرد چادروں سے مراد اپنا مراق اور عارضہ سلسل بول لیتے ہیں اور ان کے ’’نبوت زدہ‘‘ مرید ’’سچ فرمایا حضور نے ‘‘حق فرمایا حضور نے‘‘ اور ’’کیا خوب فرمایا حضور نے‘‘ کے شور سے اک دنیا سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ان کے مرید اگر ’’آسمان‘‘ سے مراد ’’زمین کوئے جاناں‘‘ یا کور وہ قادیان کے گھور مراد لے لیں تو آپ ان کا کیا بگاڑ لیں گے؟ ’’دوبارہ‘‘ سے ’’بار اولین‘‘ عدل وڈا‘‘ سے ’’ظلم وجور‘‘ ’’غلبہ وظہور ‘‘ سے ’’ہزیمت وضعف‘‘ ’’کسر صلیب‘‘ سے ’’فروغ صلیب پرستی‘‘ وغیرہ وغیرہ مراد لے لیں تو کون ان کا منہ بند کرے گا؟
قارئین کرام! ’’عقیدہ حیات مسیح‘‘ کی نسبت لفظ ’’مشرکانہ‘‘ سنکر حیرت میں ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضرات قادیانین شرک سے متنفر دیکھ کر ان کو یہ جل دیا کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کو زندہ مان کر تم اللہ تعالیٰ کی صفت ’’وحی‘‘ میں ان کو شریک کرتے ہو۔ یہ کھلا ہوا شرک ہے۔
سبحان اﷲ! کیسا دجل ہے!! مرزا کو نبی اور رسول ماننے والو مسلمان اب ایسے بھی سادہ مزاج نہیں کہ تمہارا یہ فریب ان پر چل جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسلمان آسمان پر اب تک زندہ ضرور مانتے ہیں۔ مگر ان کو ’’زندہ جاوید‘‘ یا ’’حی لایموت‘‘ نہیں جانتے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اک دن موت کا جام پینا پڑے گا۔ فرمائیے اب بھی مسلمان مشرک ہی رہے؟