۷… ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ(نسائ:۱۵۹)‘‘ تمام اہل کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے ان پر ایمان لائیں گے۔ معلوم ہوا کہ وہ ابھی مرے نہیں ہیں زندہ ہیں۔ ’’لن یستنکف المسیح ان یکون عبداً ﷲ ولاالملئکۃ المقربون (نسائ:۱۷۲)‘‘ اللہ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اور ملائکہ مقر بین کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ جیسے فرشتوں کی پیدائش بغیر سبب کے کلمہ کن سے ہوئی ہے۔ اسی طرح مسیح کی پیدائش بھی ہے۔ اسی لئے اللہ نے مسیح کو ملائکہ کے مقر طبعی (آسمان) پر اٹھالیا۔ پس جو غذا فرشتوں کی ہے وہی آپ کی بھی ہے۔
۹… ’’واذ کففت بنی اسرائیل عنک (مائدہ:۱۱۰)‘‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ سے بطور تذکیر نعمت کے فرمائے گا کہ میں نے یہود کو تیرے قتل اور صلیب دینے سے دور ہٹائے رکھا وہ تجھ پر قابو نہ پا سکے اس طرح پر کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے دشمن آسمان سے بہت دور اسی زمین پر ناکام رہے۔
۱۰… ’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم (مائدہ:۱۱۷)‘‘ قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجواب سوال الٰہی عرض کریں گے کہ جب تونے مجھے پوری طور سے اپنے (آسمان کی) طرف اٹھالیا تو ان کانگراں تو ہی رہا۔ اس میں پہلی دفعہ کے زمانہ تبلیغ کے بعد جب آپ آسمان پر چلے گئے اور نصاریٰ بگڑ گئے تھے کا ذکر ہے۔ دوسری دفعہ کے بعد تو سب باایمان ہوں گے۔ پس نہ اس کا سوال ہوگا نہ اس کا یہ جواب ہے۔
۱۱… ’’ولنجعلہ آیۃ للناس (مریم:۲۱)‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہونے میں نیز آسمان پر جانے اور پھر وہاں سے اتر کر آنے میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرح خدا کی قدرت کا ایک نشان ہیں۔ تمام لوگوں کے لئے دیکھو نمبر۱۳۔
۱۲… ’’وجعلنی مبارکا اینما کنت (مریم:۳۱)‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جہاں کہیں بھی رہیں گے (زمین یا آسمان پر) اللہ نے ان کو بابرکت (خیر کثیر والا اور علو یعنی بلندی والا) بنایا ہے۔
۱۳… ’’وجعلناہ مثلاً لبنی اسرائیل (زخرف:۵۹)‘‘ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی اسرائیل کے لئے اپنی قدرت کا ایک نشان (بے باپ سے پیدا ہونے آسمان پر جانے میں) بنایا ہے۔