اس کا اطلاق تمام ان امور پر بھی ہوتا ہے جن کا تعلق ایک ایسی حکومت کے استحکام کو متزلزل کرنے سے ہو جو کسی ملک میں بذریعہ قانون قائم ہو۔
آیت کے پہلے حصہ کے متعلق جس میں تین اخلاقی قوانین پر عمل پیرا ہونے کا حکم ہے۔ میں نے حکومت سے ان کا تعلق ظاہر کرنے کے لئے حسب ذیل بیان کیا۔
’’اگر ہم حکومت کے قانون کی عزت کرتے ہیں اور قانونی ٹیکس ادا کرتے ہیں تو حکومت پر کوئی احسان نہیں کرتے۔ حکومت نے ہمارے لئے قانون وضع کئے اور ہمارے جان ومال وآبرو کی حفاظت کی… قرآن مقدس ہم کو اتنے ہی پر اکتفا کرنے کو نہیں کہتا بلکہ اس سے بھی زیادہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ ہم کو گورنمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھلائی برتنی چاہئے۔ ہم کو حکومت کے بارے میں حصہ لینا چاہئے۔ جب اس کو مصائب کا سامنا ہو تو فوراً اس کی مدد کو لپکنا (دوڑنا)چاہئے ۔ اس کے لئے آسانیاں بہم پہنچانی چاہئیں۔ اس کے دشمنوں کو سزا دینی چاہئے۔ اور جب اس کو بڑی مہمات پیش آئیں تو ہم کو اپنی خدمات پیش کردینی چاہئیں۔
بلکہ قرآن پاک چاہتا ہے کہ ہم اس سے بھی زیادہ بلند ہوں۔ ……دکھاتے ہوئے کہ نیکی کی خالص شکل جو کوئی شخص اپنے قربت دار کے ساتھ برتتا ہے۔ (آخری اصول زندگی جس کا آیت میں ذکر ہے۔) ……جب کہ ایک ماں اپنے بچے کی نگہداشت کرتی ہے تو وہ ایسا بخیال کسی خواہش ذاتی یا استحسان نہیں کرتی۔ حکومت کے ساتھ اس سب سے بڑے حسن سلوک کو ہم کریں گے۔ اگر ہم بلا اظہار اور بغیر کسی قسم کے معاوضہ کے خدمات کریں…‘‘
پنجاب کی ۱۹۰۷ء کی بے چینی کے متعلق میں نے حسب ذیل تقریر کی۔
’’ اے ہزاروں انسانو جو اس جلسہ میں جمع ہو اور اس شہر کے رہنے والے ہو۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم میں ۱۹۰۷ء میں کوئی باغیانہ روح پائی جاتی تھی اور کیا تم ایسے بے وفا تھے کہ حکام کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ کیا تم اطاعت اور وفاداری کے متعلق قرآن کی تعلیم بھول گئے؟ کیا وہ آیت جو جمعہ کو منبر پر سے پڑھی جاتی تھی۔ تمہاری یاد سے محو ہوگئی…؟
تم مسلمان ہو اور کوئی مسلمان دغا بازی کا ملزم نہیں ہوسکتا۔ تم ایماندار ہو اور کوئی ایماندار بادشاہ کا بدخواہ نہیں ہوسکتا۔ تم قرآن پاک کے متبع ہو اور قرآن پاک اپنے متبعین کو حکومت کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔‘‘