پھونک دی تھی۱؎۔ زمانہ لارڈ کرزن میں تقسیم بنگال سے اس صوبہ میں بڑی بے چینی پیدا ہوگئی تھی۔ سارا صوبہ بغاوت کے جوش میں تھا۔ یہاں تک کہ پایہ تخت حکومت کلکتہ سے دہلی کو تبدیل کرنا پڑا۔ اس وقت بھی گورنمنٹ کے کاموں میں مسلمانوں ہی نے مدد دی۔
جماعت اسلامیہ لاہور۔ پایہ تخت گورنمنٹ پنجاب کے رہنمائوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو مناسب حدود میں رکھنے کے لئے ہاتھ پیر ہلانا ضروری سمجھا۔ مجھ سے درخواست کی گئی کہ میں اس موضوع پر جو دربار کے زمانہ میں مسلمان لیڈروں کو جوش دلارہا تھا۔ ایک سلسلہ لیکچروں کا شروع کروں۔ مسلمانوں کو اب کیا کرنا چاہئے؟
ہر لیکچر میں میں نے مضمون کے ایک خاص پہلو پر بحث کی۔ آخری لیکچر کا مبحث جس کو نہایت توجہ سے قریباً پانچ ہزار آدمیوں کے مجمع نے سنایا تھا۔ ’’گورنمنٹ برطانیہ، دول مسلم وغیر مسلم کے ساتھ مسلمانوں کا طرز عمل۔ ‘‘ لیکچر ہند کے ایک اخبار میں شائع ہوا۔ اور میں ذیل میں اس کا اقتباس یہ ظاہر کرنے کے لئے درج کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کو اطاعت حکومت کا کس قدر احساس تھا۔ ’’مولوی ان آیات کو جو مقدس رسول ہر خطبہ میں ممبر سے پڑھا کرتے تھے نہیں بھولے ہیں اور اسی وجہ سے آج تک پڑھی جاتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے: ’’بے شک اللہ حکم کرتا ہے انصاف کا، اعزاء کے ساتھ سلوک کرنے کا اور نیک کاموں کا اور وہ فاحشات، منکرات اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔‘‘ ……اس آیت کے دوسرے حصہ پر توجہ کرنے سے تم کو معلوم ہوگا کہ اس میں ان ہی تین معاملات کا ذکر ہے جن کی طرف مذکورہ بالا قانون توجہ دلاتے ہیں۔
آیت میں جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ فاحشہ ہے جن کا تعلق ان برے کاموں سے ہے۔ جو انسان کے اپنے اخلاق پر اثر کرنے والے ہیں۔ دوسری ممنوع شے منکر ہے۔ یعنی ایسے کام جن کی برائی کا اثر اور لوگوں پر پڑتا ہے۔ آخر میں ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم حکومت کے قوانین کی مزاحمت نہ کریں۔ جو رعیت کے حقوق کی نگہداشت کے لئے بنائے گئے ہیں۔ لفظ ’’بغی‘‘ (بغاوت) ایک جامع لفظ ہے جس میں صرف لفظ ’’سڈیشن‘‘ ہی کے معنی نہیں نکلتے۔ بلکہ
۱؎ یہ شخص باوجود امام ہونے کے ہمارے سامنے کھلے ہوئے سفید جھوٹ سے یہ کہہ کر کہ قرآن پاک اور احادیث محمد رسول اللہﷺ متبعین اسلام کو شاہی حکومت انگریزی کی اندھی اور مکمل وفاداری کا پابند کرتے ہیں۔ احتراز نہیں کرتا۔ گویا کہ یہ حکومت اپنی موجودہ حالت میں اوائل اسلام سے موجود رہی ہے۔