جارحانہ نہیں ہے جیسا کہ بہت سے لوگ خیال کرتے ہوں گے۔ کیونکہ اس کا حکم اس وقت ہے جبکہ دشمن ہمارے ملک ملت یا مذہب پر حملہ کرے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی اور روحانی قوت کا جس سے انگلستان بہت خائف ہے اور جن مردانہ اور عمدہ صفات کو وہ باوجود اپنی سالہا سال کی زبردست سازشوں اور خراب کرنے کی کوششوں کے مسلمانوں سے جدا نہ کرسکا۔ خاتمہ کردیں۔ان کے پروگرام میں تیسری سب سے بھیانک بات مسئلہ خلافت ہے۔ کیونکہ فرقہ احمدیہ کے بانی نے نہ صرف خود ایک مقدس اور ممتاز رسول ہونے کا دعویٰ کیا۔ بلکہ تمام زیر نگرانی وحفاظت حکومت انگریزی مسلمانوں کے لئے ایک خلیفہ ہونے کا بھی جس کو اس کے متبعین بہت مضبوطی سے سہارے ہوئے ہیں۔
یہ امر عجیب ہے کہ اس وقت جب کہ تمام انگلستان کی شاہی فوجیں پورے زوروشور سے اسلامی قوموں کو غلام بنانے میں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ مدینہ کو اپنے زیر اثرلانے میں منہمک ہوں تو مسلمان یا ایک گروہ جو مسلمان ہونے کا مدعی ہو۔ ایسی قوت سے دوستانہ تعلق رکھے جو اسلام کو مٹانے اور اس کی تعلیم کی تخریب پر تلی ہوئی ہے۔ کوئی سچا مسلمان گلیڈ سٹون کے اسلام پرسخت اور وحشیانہ حملوں کو نہیں بھول سکتا جو اب تک حکومت انگلشیہ کا خاص مقصد بنی ہوئی ہیں۔کس طرح ایک مسلمان انگلستان کی تعدی اور ظلم کو بھول سکتا ہے جو وہ ہندوستان، ایران اور مصر میں آئے دن کرتا رہتا ہے۔ ایک شخص کے لئے انگلستان کے اس متواتر اور باقاعدہ آرمینی پروپیگنڈہ پر نظر ڈالنا کافی ہے۔ جو صرف اسلام کو زیر کرنے اور اسلامی تعلیم کی تخریب کرنے کے لئے تمام دنیا میں ہورہا ہے۔ یا اس کھلی اور خفیہ کارروائی پر نظر ڈالنا جو ابھی حال میں انگلستان نے دوران جنگ ترکی ویونان اور قبضہ قسطنطنیہ یہودیوں کے فلسطین حوالہ کرنے اور جزیرۃ العرب کی تقسیم کرنے سے ظاہر کی۔
تاریخ اسلام کے اس نازک موقع پر سب سے زیادہ مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں سے حملہ آوروں کو نکال دیں۔ اس کام کو سرانجام وہ صرف تعمیر مساجد سے نہیں کرسکتے۔ بلکہ قومی جماعتیں بنانے اور اعلیٰ درجے کی جدید تعلیم سے کرسکتے ہیں۔ تاکہ وہ ہمارے دشمنوں کو ترکی بترکی جواب دے سکیں۔ ہمارے نبی محمدﷺ نے خود فرمایا کہ ایک گھنٹہ کا تخیل ہزار گھنٹہ کی عبادت سے بہتر ہے وہ اور کونسی چیز ہے جو اپنے ملک کی آزادی اور اس کے باشندگان کی مظلومانہ