۔ مولانا خیری کے خطوط اور نیز دیگر ذرائع سے ان کو جرمنی میں میں اشاعت اسلام کا حال معلوم ہوا۔ وہ جرمنی گئے برلین میں حالات کا مشاہدہ کیا۔ واپس آکر امیر جماعت محمد علی صاحب (مرزائی) کو لاہور خط لکھا۔ یہاں سے ایک مبلغ عبدالمجید صاحب (مرزائی) فوراً بھیجے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد صدر الدین صاحب (مرزائی) بھی پہنچ گئے۔ جماعت اسلامیہ برلین نے جس کے بانی مولانا خیری ممدوح ہیں۔ صدر الدین صاحب کی خدمت میں ایک وفد بسرکردگی جناب ترکی جنرل فیلڈ مارشل رمزے پاشا بدیں غرض بھیجا کہ اشتراک عمل کی کوئی صورت پیدا ہوجائے اور متحد ہوکر اشاعت وتبلیغ اسلام کا کام ہو،تا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع نہ ملے، اور نہ کام میں رکاوٹ پیدا ہو۔ مگر جب سے یہ احمدی پارٹیاں گئی ہیں کسی جرمن کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
حالانکہ پہلے ہر ہفتہ قریب قریب آتی رہتی تھی۔ افسوس کہ اس سمجھوتہ کو صدر الدین صاحب نے بری طرح ٹھکرا دیا۔ اس کی وجہ قارئین رسالہ ہذا سے مخفی نہ رہے گی۔ ایک باعث شان اسلامی کو قائم کرنے اور رکھنے میں کوشاں ہے اور وہ سیدھے اور سچے اسلام کی اشاعت وتبلیغ کررہی ہے۔ اس کو نہ انگریزوں سے واسطہ ہے۔ نہ جرمنوں سے تعلق۔ دوسری جماعت کا مطمع نظر استحکام سلطنت برطانیہ ہے۔ جن کے داخلہ جماعت کے دس اصولوں میں سے ایک اصول استحکام سلطنت برطانیہ ہو وہ اس سے کسی طرح غافل رہ سکتے ہیں۔
چنانچہ اس کی کوششوں کا یہ رسالہ شاہد ہے اور خواہ کمال الدین صاحب کا ایسے نازک موقعوں پر دوبارہ بغرض مکہ معظمہ جانا اور شریف یا شاہ حجاز کا مہمان ہونا بھی اپنی خاموش زبان سے ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کرارہا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ اس قسم کی دو جماعتوں میں اتحاد اور اشتراک عمل کس طرح ہوسکتا ہے؟ ہمارے ان کے مذہب میں فرق ہماری ان کی سیاست میں زمین آسمان کا تفاوت۔ ہندو سیاسیات میں ایک حد تک ہمارے ہم آہنگ ہیں۔ ان سے ان میں (سیاسیات) ایک حد تک سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔مگر وہ جماعت جو سیاسیات میں مظلوم ہندوستانیوں کے خلاف گورنمنٹ کو اپنی خدمات پیش کرے اور مذہب میں افغانستان میں جاکر جہاد کی لغویت اور ناجائز ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ کرے۔ کس طرح ہم سے اتحاد کرسکتی ہے۔
برادران اسلام! ایسی زبردست تحریک سے جو اسلام کی حقانی اور روحانی قوت کو خاک میں ملانے والی ہو بچنا اور بچانا آپ کا فرض ہے اور جماعت اسلامیہ برلین کو مدد دے کر اتنا قوی بنا دینا کہ وہ اپنی اشاعت کے کاموں میں ان لوگوں سے دب کر نہ رہنے پائے۔ آپ کی آئندہ فلاح وبہبودی کا باعث ہے۔ یورپ میں اسلام کو بدنام کرنے والوں نے پہلے ہی سے بہت بدنام کررکھا