اغراض کے لئے بے انتہا خطرناک اور مضر ہیں۔ خصوصاً جہاں وہ آپ کی گورنمنٹ کا ان کے ’’معصوم‘‘ جاسوسوں کے قتل کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں میں اپنے پہلے خط کے الفاظ بجنسہ درج کرتا ہوں: ’’شریف افغان قوم کا نمائندہ کس طرح ان احمدی ایجنٹوں کو جرمنی میں مدد پہنچا سکتا ہے؟ جو نہ صرف برطانی شہنشاہیت کے ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنے اعلانات میں ایسی رپورٹیں شائع کرتے ہیں جن کا مقصد حکومت اور قوم افغان کی نیک نامی کو برباد کرنا ہے۔ جو انہوں نے سپاسنامۂ ہزرائل ہائینس پرنس آف ویلز منجانب جماعۃ احمدیہ‘‘ (طبع ثانی جولائی۱۸۲۲ء طبع کردہ این مکرجی آرٹ پریس کلکتہ ویلنگٹن اسکوائر) صفحہ۷ پر لکھا ہے وہ حسب ذیل ہے: ’’محرف یہی نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کے ممبروں نے اپنے امن پسندی اور عقیدہ وفاداری (سلطنت وحکومت برطانیہ سے) کی اشاعت کے بدولت برداشت کیا ہے۔ جہاں ان کے مخالف زیادہ طاقت ور تھے۔ وہاں ان کو خوف ناک مصائب کا شکار ہونا پڑا۔ مثلاً جماعت کے دو ممبر افغانستان میں اس وجہ سے تکلیف دہ موت سے مارے گئے کہ بموجب ان کے مقدس بانی کی ہدایات کے وہ جہاد۱؎ (مذہبی جنگ) کے جواز کے قائل (معتقد) نہ تھے۔
ان میں سے ایک تو افغانستان میں بڑے عالموں میں سے تھا اور اس قدر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ وہ رسم تاج پوشی امیر حبیب اللہ مرحوم کے لئے انتخاب کیا گیا تھا۔ وہ اسی امیر کے حکم سے نہایت بے رحمی سے سنگسار کرکے مار ڈالا گیا یہ بھی بجز مذکور بالا وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے۔‘‘ دوسری طرف میں نے آپ کی توجہ لوکل انزیجر مجریہ ۱۹؍جون ۱۹۲۳ء کے اس نہایت اہم اور تحریری آرٹیکل کی طرف بھی مبذول کرائی تھی جو آپ کے مع اپنی تمام شان وشوکت، اپنے عملی اور نیز جوان افغان طالب علموں کے رسم میں شرکت کرنے سے کئی ہفتہ پہلے شائع ہوا تھا۔ یہاں میں پھر اپنے خط سے لوکل انزیجر کے الفاظ نقل کرتا ہوں۔
’’احمد (مرزا) کے دعاوی اور تعلیم کا سینکڑوں اسی قسم کی جگہوں میں سے ایک حوالہ: ’’تو یاد رکھو کہ گورنمنٹ انگریزی تمہارے لئے ایک رحمت اور برکت ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے جو تمہاری حفاظت کرتی ہے لہٰذا تم کو بھی اس ڈھال کی دل وجان سے قدر کرنی چاہئے۔ انگریز مسلمانوں سے جو تمہارے سخت مخالف ہیں۔ ہزار درجہ بہتر ہیں۔‘‘ کیا مسجد زیر بحث کی رسم میں مدد دینے سے
۱؎ احمدی انگلستان کی ظالم حکومت کے خلاف ہر جنگ کو نہایت چالاکی سے مجرماً مذہبی جنگ قرار دیتے ہیں تاکہ اس کے فرو کرنے میں حصہ لے سکیں۔