مجھ کو واقعی افسوس ہے کہ تم نے معاملہ کو بہت کوتاہ بینی اور ایک رخ سے دیکھا ہے اور علاوہ ازیں تم حدود اخلاق اور مسلمانوں کے دستور سے بہت آگے چلے گئے اور افغانوں جیسی ایک قابل وقعت قوم پر حملہ کر بیٹھے میں اس کو خالص تمہاری ذات کی طرف سے ایک جلد بازیانہ اور سوچے سمجھے حملہ سمجھتا ہوں اور تمہارے نہ رکنے والے قلم کی کوشش جو ٹوٹ جانے کے قابل ہے۔
بعض کوتاہ بین اور خود پسند مسلمانوں کے اس قسم کی لچر گفتگو کا یہ نتیجہ ہے کہ عالم مسلمانی منتشر اور ذلیل ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی زبردست قوم خاک ذلت میں مل گئی ہے اور اجنبیوںکی اطاعت میں جا پڑی ہے۔
مجھ کو یقین ہے کہ میرے خط کے وصول ہونے اور مطالعہ کرنے کے بعد تم اپنے خیالات بدل دو گے اور یہ کہ تم میرے اصلی خط کو معہ اپنی رائے کے تبدیلی کے اور احمدیہ پمفلٹ میں شریف افغان قوم پر جلد بازانہ اور قابل نفرت حملہ کرنے کی معافی کے شائع کردو گے۔ ورنہ میں دوسرے طریقوں اور زیادہ تیز صورتوں میں آپ کی ناسمجھی کے اظہارات کی تردید کو مسلمان بھائیوں کے روبرو پیش کرنے میں اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہوں
آپ کا نیاز مند
دستخط غلام صدیق خاں
ہز مجسٹی امیر افغانستان کا سفیر اور اکسٹر آرڈینری منسٹر
اپیل بحضور ہز مجسٹی امیر امان اﷲ خاں۔ شاہ افغانستان
جناب والا!
چند یوم قبل مجھ کو اپنے پمفلٹ کی ایک کاپی (نسخہ) حضور والا کی خدمت میں پہنچنے کی عزت حاصل ہوئی۔ جس میں آپ کے سفیر متعینہ جرمنی، ہزا کس لینی غلام صدیق خاں کے نام نہایت خلوص دوستانہ اور صاف الفاظ میں لکھی ہوئی ایک کھلی چٹھی ہے۔ اس خطرہ پر آگاہ کرنے کی کوشش میں جو عام طور سے اسلام کے لئے اور خاص طور سے افغانستان کے لئے احمدی ایجنٹوں کی ایمان فروشانہ سرگرمیوں سے لاحق ہے۔ ان کے (سفیر صاحب) کی طرف سے ایک بھونڈا الٹی میٹم انعام میں وصول کرکے مجھ کو سخت تعجب ہوا اس لئے میں اس کو اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ بوجہ احمدیوں کے ساتھ مذہبی ہمدردی کے جنہوں نے حکومت افغانی ان کے ایجنٹوں کے قتل کا بدنما الزام لگایا۔ ان کو (سفیر صاحب) بالکل ترک کردوں اور میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اسلام اور