شائع کیا اور ایک آرٹیکل بعنوان ’’کھلی چٹھی بنام نمائندہ افغانی گورنمنٹ متعینہ جرمنی‘‘ مجھ کو خطاب کرکے لکھا ہے۔ جو بوجہ آپکی غلط فہمی کے مجھ کو بے انتہا تعجب میں ڈالتا ہے۔ آپ اس میں لکھتے ہیں کہ میں براہ راست یا بالتوسط جماعت احمدیہ کے ایجنٹوں کو سہارا دیتا ہوں اور اس کا ثبوت مسجد کی رسم سنگ بنیاد پر میری موجودگی میں دیکھتے ہیں۔ مجھ کو افسوس ہے کہ آپ حق سے بہت دور چلے گئے ہیں اور ایسی لچر اور فضول دلیل کا سہارا پکڑتے ہیں۔
ہمارے مقدس مذہب کے قوانین کے بموجب ایک مسجد سچے ایماندار کے لئے خدا کی عبادت کی ایک سادہ تعمیر اور جگہ ہے۔ اچھا تو بانی مسجد کا مسلمان ہونا یا غیر مسلم ہونا مسجد کی بزرگی اور پاکی کو کم نہیں کرتا۔ ہمارے قرآن مجید نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ ایسی مسجد میں جس کو کسی کافر نے بنایا ہو نماز کی ممانعت ہے یایہ کہ وہ مقدس نہ سمجھی جائے۔ برخلاف اس کے ایسے خیالات رکھنے والے عالمان قرآن کے نزدیک قابل نفرت ہیں۔ پھر مسجد کی بنیادی رسم کے موقع پر بحیثیت ایک مسلمان کے میرا موجود ہونا جس کو خالص اسلامی نظر سے سمجھنا چاہئے۔ کس طرح آپ کے ذاتی نکتہ چینی کے لئے پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کے دوسرے معنی لگائے جاسکتے ہیں۔
میں یہ یقین نہیں کرتا کہ تمہارے سیاسی خیالات اور ارادوں نے تم کو نیک اور مذہبی کاموں کے دائرے سے خارج کردیا ہے۔ اور یہ کہ تمہارے خیالات مقدس مذہب اسلام کی ہدایت کے مخالف ہوگئے ہیں۔ میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ تعمیر مسجد کسی طرف سے وہ ہو اسلام کے لئے سب سے بہتر پروپیگنڈہ ہے۔ اس کے برخلاف نہیں۔ ہماری چشم بینا اور ایک صحیح رائے قائم کرنا ذاتی اغراض کی بناء پر ترک نہ ہونی چاہئیں۔ یہاں سیاست کا کوئی۱؎ دخل نہیں ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہ کی بنیاد رکھتے وقت موجود ہونا بطور سہارے یا اعانت کے نہیں سمجھا جاسکتا۔ لیکن صرف بطور ادائیگی فرض مذہبی کے۔
۱؎ مسجد پٹنی میں عید کے موقع پر بموجب تتمہ اخبار ہند مجریہ ۱۸؍اگست ۱۹۳۲ء ہزاکس لینی سفیر افغانستان متعینہ لندن، سردار عبدالہادی خاں نے اپنی تقریر میں چند زبر دستی ریمارک کئے۔ اس نے کہا کہ خواہ وہ قادیانی احمدیوں کے دعاوی کو مانے یا نہ مانے وہ بہت خوش تھا کہ دنیا کے مختلف حصص کے مسلمانوں سے ملنے کا اس کو موقع ملا۔ اس نے آخر میں کہا کہ جبکہ مذہب اس کی پوری توجہ کا مستحق ہے۔ پھر بھی مسلمان اس سیاسی پہنچ کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ جن سے اسلامی سلطنتوں کو ٹکرانا پڑا۔