ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
حضرت اقدس اس آٰیت کے ہر ہر جزو کا ترجمہ فرماتے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ہرہر جزئی حکم کی مختصرا توضیح فرماتے جاتے تھے جو اس آیت میں دین کے معاملات میں لکھ لینے کے بارے میں مذکور ہیں پھر فرمایا کہ چاہے چھوٹا ہی معاملہ ہو لیکن اس کو بھی لکھ لے کیونکہ لکھ لینے سے بہت مدد ملتی ہے اور پھر کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا ۔ سب شبہات کا علاج یہی ہے جو اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ۔ یہ تو ارشاد ہے اب آگے فقیہ کا کام ہے ۔ اہل فقہ نے یہ طے فرما دیا ہے کہ یہ مشورہ ہے واجب نہیں ۔ محض ہماری مصلحت کے لئے یہ دستورالعمل بتادیا گیا ہے ۔ باقی اگر کوئی اپنی مصلحت ہی کو فوت کرنا چاہئے تو وہ جانے اختیار ہے ۔ فقہاء نے تو اس کے متعلق یہ حکم لگایا ۔ اہل ظاہر ظاہر پر گئے ۔ انہوں نے قاکتبوہ کے لفظ سے یہ سمجھا کہ لکھنا واجب ہے ۔ اب رہ گئے صوفی صاحب انہوں نے کہا کہ میاں یہ تو ساری تفسیریں مدلول و مقصود ہیں ہی مگر ہمیں تو اس آیت سے ایک سبق بھی ملا وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ بڑے ہی رحیم ہیں وہ ہمارا ذرہ برابر اور ایک پیسہ کا بھی نقصان نہیں چاہتے جب ایسے رحیم کریم ہیں تو امید ہے کہ ہمارا اس سے زیادہ ضرر یعنی عذاب کب پسند کریں گے صوفیہ کے نزدیک سب سے زیادہ امید کی آیت یہی ہے ۔ امید کی آیت تو عموما سب لوگ لاتقنطوا من رحمتہ اللہ کو سمجھتے ہیں لیکن صوفیہ کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر امید کی آیت یہ آیت ہے ۔ اسی طرح صوفیوں کی نظر ہر جگہ ایسی جگہ پہنچتی ہے جہاں دوسروں کی نہیں جاتی چنانچہ ایک حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ پچھلی رات کو اللہ تعالیٰ عرش سے آسمان دنیا نزول فرماتے ہیں اس کے متعلق محدثین اس تحقیق میں مشغول ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نزول ظاہری بلا تاویل ہے گو اس نزول کی حقیقت ہم نہیں سمجھ سکتے جس قسم کا نزول ظاہری بلا تاویل ہے ۔ جس قسم کا نزول ان کی ذات کے لائق ہے ویسا نزول فرماتے ہیں متکلمین کہتے ہیں کہ نزول کے معنی توجہ خاص کے ہیں ظاہری نزول سے وہ منزہ ہیں صوفی اور ہی طرف گئے وہ کہتے ہیں کہ