ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ حضرت شیخ کے بہت ہی معتقد تھے اور فرماتے تھے کہ مجھ کو اس طریق میں جو اشکال پیش آتا ہے وہ شیخ کے مکتوبات سے حل ہو جاتا ہے ۔ مولانا تو نہایت متبع سنت تھے وہ ہر ایک کے معتقد ہو نہیں سکتے تھے اسی سے ظاہر ہے کہ حضرت شیخ کو وہ کس قدر متبع سنت سمجھتے تھے اور شیخ کے مکتوبات سے بھی جن میں جا بجا نہایت شدو مد کے ساتھ اتباع سنت کی تاکیدات ہیں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سختی کے ساتھ متبع سنت تھے صرف سماع میں بیشک مغلوب تھے اور معذور تھے چنانچہ جب امام حسام الدین نے آپ پر احتساب کیا تو آپ نے توبہ کرلی جب کئی روز گذر گئے تو بعض خادموں نے جن کو سماع میں لطف آتا تھا کسی چکی پیسنے والی کو ہندی کا ایک عاشقانہ دوہا سکھلا دیا جو اس نے چکی پیستے وقت گایا ۔ ممکن ہے کہ وہ خود حضرت شیخ ہی کی لونڈی ہو کیونکہ اس زمانہ میں تو یہاں بھی لونڈی غلام ہوتے تھے ۔ بس اس دو ہی کا کان میں پڑنا تھا کہ شیخ بیتاب ہوگئے اور اسی حالت میں ملا حسام الدین کو یہ لکھ بھیجا کہ ایک آدمی کے آگ لگ رہی ہے اگر ہوسکے تو آکر بجھاؤ ۔ ان کو بڑا غصہ آیا کہ توبہ کر کے پھر توڑ دی ۔ وہ پھر احتساب کے لئے خانقاہ میں آئے تو خود ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ شیخ کے مرید ہوگئے شیخ نے بھی کچھ عذر نہیں کیا مرید کر لیا ۔ تو یہ رنگ تھا شیخ کا ۔ وہ معذور تھے پھر اس استفسار پر کہ آیا شیخ مزامیر کے ساتھ سماع سنتے تھے یا بلا مزامیر کے یہ فرمایا کہ ہمارے مولانا گنگوہی کی تو یہی تحقیق ہے اور یہی اقتباس میں ہے کہ ہمارے مشائخ میں سے کسی نے مزامیر کے ساتھ سماع نہیں سنا ۔ لیکن میں نے ایک خط قاضی ثناءاللہ صاحب ٌپانی پتی کا دیکھا واللہ اعلم اس کی نسبت قاضی صاحب کی طرف صحیح بھی ہے یا نہیں بہرحال اس میں لکھا تھا کہ حضرت شیخ مع مزامیر کے سماع سنتے تھے ۔ اگر یہ نسبت صحیح ہے تو میں نے اس کے متعلق یہ توجیہ کی ہے مزامیر قبیح تو ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قبیح لعینہ ہیں یا قبیح لغیرہ ۔ شامی نے ان کے متعلق کچھ عذر لکھا ہے ۔ اسی لئے قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ شامی کے معتقد نہ تھے ۔ حضرت شیخ کے کمال میں